کس نے سن ،آ کے ترے در پہ دُہائی دی ہے |
دل کی دھڑکن ، "مرا ربّ “، کہتی سنائی دی ہے |
ہے ترے ہاتھ نے کی ، کون و مکاں کی تخلیق |
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے |
دل ہے انسان کا ، وہ عرش تُو جس پر اترا |
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے |
وہ جو اِخلاص سے در پر ترے جھک جاتا ہے |
تُو نے اس شخص کو ہر دکھ سے رہائی دی ہے |
تیری نظروں میں ہمیشہ وہی ٹھہرا ہے غنی |
جس نے اوروں کے لئے اپنی کمائی دی ہے |
تیری پہچان نے چوروں کو بنایا ابدال |
تیرے عرفان نے شاہوں کو گدائی دی ہے |
تجھ پہ ایمان کی خاطر کبھی چھوڑے رشتے |
تُو نے ماں باپ ، عزیزوں سے جُدائی دی ہے |
ہم نے مانا ہے اسے ، جس نے ترا نام لیا |
اس نے کب چیز کوئی ہم کو پرائی دی ہے |
ہم اذانوں میں ترا نام ہی لیتے ہیں سدا |
جانے کس کس کو یہاں ہم نے صفائی دی ہے |
ہے یہ طارِقؔ کی تمنّا کہ ملے تیری رضا |
تُو نے بدلے میں برائی کے بھلائی دی ہے |
معلومات