| ہجر و وصال غم خوشی مُدغم نہ کیجئے |
| اشکوں سے مسکراہٹوں کو نم نہ کیجئے |
| لائیں گے جا کے مرہمِ عیسٰی کہاں سے ہم |
| تیرِ نظر کے وار یوں پیہم نہ کیجئے |
| بھاتا ہے دل کو پوچھنا اس کی گلی کا حال |
| لیکن مزاجِ یار کو برہم نہ کیجئے |
| کوئے صنم کی راہ دکھاتا نہیں کوئی |
| پھر رہنما چراغ کو مدّھم نہ کیجئے |
| یہ جان کر وفات سے وابستہ ہے حیات |
| غم کو خوشی پہ کیسے مقدّم نہ کیجئے |
| مانا فرشتوں پر پڑے گی چشمِ التفات |
| جب تک خدا کے سامنے آدم نہ کیجئے |
| کہتے ہیں دل میں ہی رکھیں جذبات سب نہاں |
| لیکن بلند ہاتھ میں پرچم نہ کیجئے |
| دعویٰ ہے ان سے پیار کا طارق مگر یہ کیا |
| ان کا جو ذکر کیجئے ہر دم نہ کیجئے |
معلومات