سب سے دھوکہ کر کے بھی سچے وہی جانے گئے |
کیوں نہ ہم سے آج تک کچھ لوگ پہچانے گئے |
عشق کو گھاٹے کا سودا جان کر اہلِ خرد |
چل دئے سب شہر کو ،جنگل کو دیوانے گئے |
کس کو دلچسپی حقیقت سے ہے ، پڑھتے ہیں سبھی |
داستانِ عشق پر لکھّے جو افسانے گئے |
ڈھونڈنے سے بھی نہیں تنہائی ملتی اب کہیں |
شہر کی آبادیوں کے ساتھ ویرانے گئے |
یوں تو کہتا ہے رگِ جاں سے بھی ہے میرے قریب |
حسرتیں کیونکر بنے ، جب شوق پہچانے گئے |
راستے کے سب مسافر دیکھتے تھے ارد گرد |
رہگزر کو اپنی خوشبو سے وہ مہکانے گئے |
کیا عجب طارِقؔ یہاں لائے کوئی دار و رسن |
جو بھی سچ بولے وہی مجرم ہیں گردانے گئے |
معلومات