ہر تمنّا کی جب انتہا تم ہوئے
پھر وہی خواب تھا، جب جُدا تم ہوئے
میں نے ہر بات دل سے نبھائی مگر
پھر بھی کہتے ہو کیوں بے وفا تم ہوئے
جتنے لمحے تھے، وارے تمہی پر مگر
پھر بھی ہر پل مجھی سے خفا تم ہوئے
آنکھ میں جو نمی رہ گئی بس وہی
میرے حصّے میں تھی ، مدّعا تم ہوئے
خود کو کھو کر ہوئے جب تمہارے فقط
نا شناسا تھے ہم ، آشنا تم ہوئے
ہم نے طارقؔ بھروسہ تمہی پر کیا
آس ، امّید کا آسرا تم ہوئے

0