کسی نے رُخ ہواؤں کا سلیقے سے جو ڈھالا ہے
مری کشتی کو لہروں نے بھنور سے خود نکالا ہے
خبر ہوتی ہے پنچھی کو کوئی تو ذات ہے جس نے
شجر پر آشیانہ ابرِ باراں میں سنبھالا ہے
خلیلوں کے لئے نمرود نے آگیں جلائی ہیں
کہیں فرعون نے موسٰی کو اپنے گھر میں پالا ہے
یقیناً آزمائش کا اسے بھی حق پہنچتا ہے
نکالے گا وہی تو ابتلا میں جس نے ڈالا ہے
نبھانے کو فریضہ مہر و مہ رہتے ہیں گردش میں
کہ دونوں نے کِیا تاریکیوں ہی میں اُجالا ہے
اکیلا ناتواں بندہ کھڑا کس کے سہارے ہو
حمایت ہو خدا کی جس کو اس کا بول بالا ہے
ہزاروں کوششوں سے کھول پائے ہی نہیں جس کو
نہ جانے کیوں پڑا دل پر عدو کے بند تالا ہے
اسی کی تو دعاؤں نے تمہیں محفوظ رکھا ہے
تمہارے سر پہ کتنی تھیں بلائیں جن کو ٹالا ہے
ہمیں طارق اسی خوش بخت کی تقلید کرنی ہے
جسے اس کی رضا حاصل ہو وہ تقدیر والا ہے

0
5