ترا عکس دل سے مٹا بھی نہیں |
دیا اور کوئی جلا بھی نہیں |
سرِ بزم جب تیری خلوت ملی |
کوئی راز دل کا کہا بھی نہیں |
تمنا کی دہلیز پر میں گرا |
تو اس کے لیے کی دعا، بھی نہیں |
وہ دروازۂ قدس آنکھیں تھیں وا |
کہا ان سے کچھ ماجرا بھی نہیں |
تری یاد میں تشنہ لب کون ہو |
اگر دل میں دشتِ وفا بھی نہیں |
نہ لب پر شکایت، نہ گریہ کناں |
ہے دل کیا جو درد آشنا، بھی نہیں |
ہواؤں نے اکثر ہے پوچھا مجھے |
تری راہ صبر آزما بھی نہیں ؟ |
نہ خنجر، نہ زخم، اور نہ دستِ ستم |
مگر قتل ہے اور جفا بھی نہیں |
تجھے کعبہ و دَیر سے کیا غرض |
اگر دل میں کوئی خدا بھی نہیں |
یہ رستہ، یہ راہی، یہ رقصِ فنا |
نہیں گر یہ طارقؔ ، بقا بھی نہیں |
معلومات