تلاش میں ہوں خود اپنا وجود ڈھونڈتا ہوں
بشر ہوں اپنی حدود و قیود ڈھونڈتا ہوں
میں اس کا ماننے والا ہوں جو ہے لا محدود
نہ جانے پھر بھی کیوں اپنی حدود ڈھونڈتا ہوں
چلوں جو اس پہ تو لے جائے مجھ کو منزل پر
وہی میں راستہ جو ہے عمود ڈھونڈتا ہوں
وجودِ شاہد و مشہود کا تو ہوں قائل
وہ جس نے بھیجے اسی کی شہود ڈھونڈتا ہوں
فلک سے نسبتِ ارضِ خیال ہو جائے
کروں جو عرش پہ ایسے سجود ڈھونڈتا ہوں
ہے پیار بانٹنا ہی نقش میری فطرت میں
کریں جو مجھ سے محبّت ودود ڈھونڈتا ہوں
کوئی ہو ایسی گھڑی دل مرا بدل دے جو
کچھ ایسی ساعتیں ہوں جو سعود ڈھونڈتا ہوں
کوئی علاج کرے آ کے عصرِ حاضر کا
کسی کا آسماں سے ہو ورود ڈھونڈتا ہوں
طویل رات کی تاریکیوں سے گزرا ہوں
قریب ہو گی سحر کی نمود ڈھونڈتا ہوں
کچھ انقلاب ہو ایسا سکوں ہو حرکت میں
کہ ختم زندگی کا ہو جمود ڈھونڈتا ہوں
میں اپنی عقل پہ حیران کیوں نہ ہوں طارِق
اگر زمین پہ ہی میں خُلود ڈھونڈتا ہوں

0
6