| اُس کی آنکھوں نے بتا رکھا ہے |
| پیار جو دل میں چھپا رکھا ہے |
| جس کو چاہا نہیں وہ بھر جائے |
| زخم مرہم سے جدا رکھا ہے |
| عشق جینے کا بہانہ ہے فقط |
| کیا بُرا اس میں بھلا رکھا ہے |
| ٹیس اندر سے سدا اٹھتی ہے |
| درد جس نے بھی دبا رکھا ہے |
| وہ سمندر نہیں دل ہے جس نے |
| شور سینے میں مچا رکھا ہے |
| ہے تسلّی یہی طارق کہ اسے |
| دل کا احوال سُنا رکھا ہے |
معلومات