| تم کو اسلاف سے نسبت ہے ، جتاتے جاؤ |
| غیر کی نظروں سے خود کو نہ گراتے جاؤ |
| غیر ممکن کو دعائیں ہی کریں گی ممکن |
| عرش کو اپنی دعاؤں سے ہلاتے جاؤ |
| تم کو مایوس نہ کر دیں کبھی غم کے سائے |
| ہاں مگر سجدوں میں اشک اپنے بہاتے جاؤ |
| رسم ہے دور چلانے کا جو مے خانے میں |
| خود جو پیتے ہو وہ اوروں کو پلاتے جاؤ |
| اپنی لاعلمی میں دشمن جو سمجھ بیٹھے تمہیں |
| پیار سے ان کی غلط فہمی مٹاتے جاؤ |
| وہ جو غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں |
| جاگتے ہو تو ذرا ان کو جگاتے جاؤ |
| رہنمائی بھی ضروری ہے سفر مشکل ہے |
| اپنے رہبر سے قدم اپنے ملاتے جاؤ |
| فکرِ دنیا سے ہو آزاد سکوں مل جائے |
| تم خدا سے جو محبّت کو بڑھاتے جاؤ |
| آسماں سے تو ہمیشہ یہ صدا آتی ہے |
| آس رحمت کی جو مولا سے لگاتے جاؤ |
| “جو گنہگار ہیں مایوس مری رحمت سے |
| میری بخشش کی نوید ان کو سناتے جاؤ” |
| تم کو پیغام محبّت کا ملا ہے سب سے |
| دل سے نفرت کی بھی دیوار ہٹاتے جاؤ |
| طارق اس عشق میں قربانی دیا کرتے ہیں |
| کیوں تذبذب ہے ہر اک چیز لُٹاتے جاؤ |
معلومات