کیا اس سے کہوں مجھ سے بہانہ نہیں ہوتا |
عاشق سے کہِیں اور ٹھکانہ نہیں ہوتا |
سوچا تھا بہت اس پہ قدم رکھنے سے پہلے |
ہر روز تو اس راہ پہ آنا نہیں ہوتا |
چلتے ہیں مسافر تو وہ رہ جاتے ہیں تنہا |
سچائی کے رستے پہ زمانہ نہیں ہوتا |
اندیشوں میں گھِر کر یہ سفر طے نہیں کرتے |
ان بھول بھلیّوں میں خزانہ نہیں ہوتا |
دنیا کی محبّت میں گرفتار کبھی ہو |
عاشق تو کبھی اتنا سیانا نہیں ہوتا |
سب نامۂ اعمال لئے ہاتھ میں جائیں |
کوئی یونہی دنیا سے روانہ نہیں ہوتا |
درپیش نہ مشکل ہو کوئی وصل کی رہ میں |
محبوب کو یوں پانا تو پانا نہیں ہوتا |
طارِق ہو بھروسہ جسے اِخلاص و وفا پر |
دل چیر کے اس نے تو دکھانا نہیں ہوتا |
معلومات