ہو مٹی کی خوشبو ، ہوا میں ہو تم
یہ کعبہ، یہ کالی قبا میں ہو تم
ہوا جو تمہارے خیالوں میں گم،
کسی بھی سخی کی دیا میں ہو تم
کہاں درمیاں وصل کی ہر گھڑی
کہاں وہ تبسّم ، حیا میں ہو تم
جو محوِ تجلّی ہوا درد میں،
وہی طُور سی ہر ضیا میں ہو تم
جو سنتے ہو چپ چاپ ہر آہ کو
تو مظلوم کی ہر دعا میں ہو تم
اسی راہ پر چل کے آیا ہوں میں ،
کہ محبوب کے نقشِ پا میں ہو تم
بدن میں جو چمکا، وہ نورِ وصال،
کہ تقلیدِ ماہِ حرا میں ہو تم
کرشمہ تمہاری ہی قدرت کا میں
مری ابتدا ، انتہا میں ہو تم
بکھرتی ہے خوشبو گلوں کی جہاں
پرندوں کی خوش کُن صدا میں ہو تم
محبت کا دریا ہو اک بے کراں
وفا جس کی موجیں ، ادا میں ہو تم
نظر جب بھی ڈھونڈے خدا کا نشاں
تو آنکھوں کے اس آئینہ میں ہو تم
میں طارق طلب گارِ فضل و کرم
فقط اک ، مرے مدّعا میں ہو تم

0
5