دل کے خواب چلا کرتے ہیں جب آنکھوں کے بیچ
عشق کے پیچے لگ جاتے ہیں دو دھاگوں کے بیچ
ذات کے صحرا میں رہتا ہے ایک سمندر سچ کا
زیست کی ناؤ کا رستہ ہے سب لہروں کے بیچ
زُہد کے کچے پھل ہوں ، جن کو ، آن پرندے کھائیں
صبر سے بیٹھا دل بے چارہ ہو باغوں کے بیچ
حسن ، تجلّی جب دکھلائے ، آنکھوں کو یوں لاگے
جیسے نوری حرف لکھے ہوں سب خاکوں کے بیچ
قوسِ قزح ہو ، رنگ ِ حنا سے ہاتھ بھی ہوں رنگین
عشق کا داغ نمایاں ہو پھر سب داغوں کے بیچ
سچ کی خوشبو آنگن کو مہکانے پر مجبور
کون گلاب ہے بن کر آیا ان کانٹوں کے بیچ
میری یادوں کا محور جب تیرا کعبہ ٹھہرا
راگ وہاں پر اپنا گایا ، سب راگوں کے بیچ
میں تو اک قطرہ ہوں اور سمندر میں آ بیٹھا
موجیں کھیلیں جیسے میرے دو ہاتھوں کے بیچ
چھوٹا سا اک دید کا لمحہ ، وصل تلک لے جائے
وقت تعارف کروا دے پھر اَنجانوں کے بیچ
اک دوجے کی شہ پر مل کر گھر کی آگ جلائیں
پیار کا رشتہ کب ہوتا ہے انگاروں کے بیچ
طارقؔ دیواریں کاہے کو بیچ میں لائیں لوگ
اپنا گھر بھی تو ہوتا ہے دیواروں کے بیچ

0
3