اداس شام دیکھتی شفق کے رنگ رہ گئی |
لہو کے رنگ دیکھ کر دھنک بھی دنگ رہ گئی |
نقوش سارے مٹ گئے تھے زخم جو لگے کبھی |
بس اک حسین یاد تھی ہمارے سنگ رہ گئی |
زمانہ ساری وسعتیں لپیٹ کر سمٹ گیا |
زمیں فقط مرے لئے جہاں میں تنگ رہ گئی |
سکوں کی زندگی کسے یہاں پہ اب نصیب ہے |
کہاں ہے امن دیکھنے کو اب ہے جنگ رہ گئی |
عروج اس کا دیکھنا غضب کچھ ایسے ڈھا گیا |
کسی نے کاٹ دی ہوا میں ہی پتنگ رہ گئی |
مزار پر تھے جبّہ پوش فاخرہ لباس میں |
نظر جو اس کی ڈھونڈتی وہاں ملنگ رہ گئی |
سفر میں کھانے کے لئے رُکے تھے بر لبِ سڑک |
وہاں بھی چارپائی اب کہاں پلنگ رہ گئی |
ملے جو اس سے دل میں پیار تھا مگر تھا رعب بھی |
وہی تو ایک شخصیّت ہے جو دبنگ رہ گئی |
یہاں جو طارِق آ بسے ہیں کچھ نہ کچھ اثر تو ہے |
زباں ہماری بھی ہے اب تہہِ فرنگ رہ گئی |
معلومات