محبّت کے ہر اک فسانے میں تُو تھا |
کہ مشہور سارے زمانے میں تُو تھا |
مرے دل کے صحرا میں اُترا جو سایہ |
فلک پر گھٹاؤں کے ، چھانے میں تُو تھا |
خموشی میں بھی تیرے جلوے تھے گویا |
مرے حرف لب پر بھی لانے میں تُو تھا |
میں روتا رہا اپنی ہجرت کی شب میں |
مری چشمِ تر کے خزانے میں تُو تھا |
میں سمجھا یہ سب کچھ فریبِ تمنؔا |
مجھے خواب لیکن دِکھانے میں تُو تھا |
تری یاد آئی، میں خود سے بھی گزرا |
نہیں تھا میں ، سارے زمانے میں تُو تھا |
نہ چمکا تھا چہرہ، نہ کھُلتا تھا منظر |
چمن میں مگر گُل کھِلانے میں تُو تھا |
جو بچھڑا تو پَل پَل ہوا قہر لمحہ |
کہ ہر سانس آنے میں ، جانے میں تُو تھا |
یہ دل، یہ بدن، سب فریبِ مجازی |
حقیقت جو اِن کی بتانے میں تُو تھا |
کہا صوفیوں نے، یہ درویش بولے |
نہاں تھا جو اس کو دکھانے میں تُو تھا |
مجھے مختصر یاد اتنا ہے طارقؔ |
مرے قرب کے ہر بہانے میں تُو تھا |
معلومات