ترے ہجر کی شام تھی، اور میں |
حسیں رُت ، سرِ بام تھی اور میں |
کہاں راہِ دلبر، کہاں مے کدہ |
تری یاد اک جام تھی اور میں |
اسی کی تھی مسحور کرتی صدا |
محبّت کا پیغام تھی اور میں |
نہ آغوشِ وعدہ، نہ زلفوں کے بل |
تھپکتی ہوا ، عام تھی اور میں |
نہ قابو میں آئی جو آوارگی |
وہ صیّاد کا دام تھی اور میں |
مرے شوق کی خاک روشن ہوئی |
کہ مٹی مری خام تھی اور میں |
عبادت نہ کی کعبہ و دیر میں |
طبیعت وہاں رام تھی اور میں |
نہ دنیا ملی، اور نہ دیں کا ثواب |
اطاعت جو ناکام تھی اور میں |
تُو ساقی، تُو مے، تُو سرود و سُبُو |
مری زیست بدنام تھی اور میں |
فقیروں کی طارقؔ سُنی داستاں |
وہی اُن کا اکرام تھی اور میں |
معلومات