دل کو تیری بے رُخی بھی چاہیے
عشق ہے، تو بے کلی بھی چاہیے
جاں لُٹا کر مانگ لی ہے روشنی
کیوں کہیں پھر ، تیرگی بھی چاہیے
وصل ہو یا ہجر کی تصویر ہو
حالتِ وابستگی بھی چاہیے
جس میں صرف اُس کا ہی جلوہ بس سکے
ایسی چشمِ زندگی بھی چاہیے
عشق کا مفہوم کیا معلوم ہو
کچھ تری نا آگہی بھی چاہیے
جس میں نمدیدہ ہوں سجدے اور جبیں
کچھ تو ایسی بندگی بھی چاہیے
پھول بھی، اور زخم بھی اُس کے لیے
کچھ خوشی ہو کچھ غمی بھی چاہیے
راستہ گر ہو کٹھن ، تُو ساتھ ہو
اے مرے ہادی، خوشی بھی چاہیے
میں ہوں مٹی، اور تُو نورِ ازل
مجھ کو تیری روشنی بھی چاہیے
جس میں ہر لمحہ وہی ہو جلوہ ریز
ذات اپنی کی نفی بھی چاہیے
ذکر میں اس کے فنا ہو جائے ‘ مَیں’
طارقؔ ایسی بے خودی بھی چاہیے

0
4