| لب پہ جب آئے ترا نام سکوں ملتا ہے |
| چین دل کو جو ترا ذکر کروں ملتا ہے |
| کھینچ لیتا ہے عدُو کو بھی جو اپنی جانب |
| وہ فقط تیری نگاہوں میں فسوں ملتا ہے |
| جسم و دل تیری ملاقات سے پاتے ہیں شفا |
| تجھ سے یہ فیض محبّت کے بدوں ملتا ہے |
| تیری صحبت میں جو آئیں ملیں انعام انہیں |
| یہ محبّت کا اثر سب سے فزُوں ملتا ہے |
| تیرا جو حکم بھی آ جائے ہو سر آنکھوں پر |
| تیرے عشّاق میں ایسا ہی جنوں ملتا ہے |
| تیری محفل میں جو آ جائے وہ پاتا ہے سرُور |
| نشّہ یاں سب سے یہ بے لاگ کہوں ملتا ہے |
| فیض جاری ہے خلافت کا خدا سے مانگو |
| جھولی پھیلاؤ کرو سر جو نگوں ملتا ہے |
| طارق اس چشمۂ اصفٰی سے ملے آبِ حیات |
| جب بھی چاہوں اسے جی بھر کے پیوں ملتا ہے |
معلومات