| پروانہ جان دینے سرِ شام آگیا |
| دیوانہ جب چراغ جلا ، کام آگیا |
| کب حرفِ شوق لب پہ ہے آنے دیا مگر |
| پہچان تھی تو ذہن میں بھی نام آ گیا |
| زخموں نے روشنی سے نمایاں کئے حروف |
| چہرہ حریف کا جو سرِ بام آ گیا |
| تیرے خیال نے وہ جگائی ہے آرزو |
| کہہ دیں گے اب ملائکہ ، انجام آ گیا |
| پایا حیات بھر کے تڑپنے کا یہ صلہ |
| پینے کو صبر و شکر کا ہے جام آ گیا |
| آنکھوں میں خواب جس قدر تھے رنگ بھر گئے |
| بکھرے ، خیال جیسے کوئی خام آگیا |
| محفل میں اپنے زخم چُھپاتے رہے ہیں ہم |
| پھر جانے کیوں کسی پہ ہے الزام آ گیا |
| بُجھنے لگا تھا رات کو جب ٹوٹ کر چراغ |
| بدلی فضا کہ امن کا پیغام آ گیا |
| پھر بھی غموں کے طاق میں جلتا رہا دیا |
| راون سے لینے سیتا کو پھر رام آ گیا |
| طارقؔ سفر طویل تھا ، ہمت تو ساتھ تھی |
| منزل ملی تو روح کو آرام آ گیا |
معلومات