| جو گھر سے نکلے تھے منزلوں کی تلاش میں وہ بکھر گئے ہیں |
| فضا میں چیخوں کی گونج باقی ہے خواب سارے تو مر گئے ہیں |
| زمیں پہ بکھرا پڑا ہے سامان زندگی کی ہنسی اڑائے |
| فلک پہ قسمت کے سب ستارے ہی رُخ بدل کر گزر گئے ہیں |
| نہ ماں کی ممتا بچی ہے باقی نہ پیارے بچوں کی مسکراہٹ |
| مسرّتوں کے حسین لمحے وہ ایک پل میں کدھر گئے ہیں |
| کسی کی بانہوں میں رہ گیا تھا وفاؤں کا عمر بھر کا وعدہ |
| کسی کے الفاظ لب پہ آئے بنا ہی کر کے اثر گئے ہیں |
| یہ کون لایا تھا راستے میں فلک کے اتنے سیہ اندھیرے |
| یہ کون خوابوں کے کارواں لے کے اور کرنے سفر گئے ہیں |
| دعاؤں میں بھیگتی ہیں آنکھیں کہ یاد ان کی ستا رہی ہے |
| رکھے گا زخموں پہ کون مرہم کہ دل دکھوں سے تو بھر گئے ہیں |
| جو کل گئے تھے پلٹ کے آنا محال ہو گا تھا کس نے سوچا |
| عزیز ان کے تلاش میں ہیں کہ ان کے پیارے کدھر گئے ہیں |
| کبھی ستارے تھے جو فلک کے جو وقتِ رُخصت چمک رہے تھے |
| وہ آرزوؤں کی خواہشوں کی چتا کو خود راکھ کر گئے ہیں |
| وہی ہے مالک اسی کی مرضی پہ صاد کر کے ہوئے ہیں راضی |
| بلاوا اس کا جب آئے طارق جھکا کے سارے ہی سر گئے ہیں |
معلومات