| عالم الغیب ہے ظاہر کہ نہاں جانتا ہے |
| ہے کہاں دل میں نہاں عشقِ بتاں جانتا ہے |
| بخش دیتا ہے اگر چاہے گنہگاروں کو |
| کس کو کب کیسے پکڑنا ہے کہاں جانتا ہے |
| کیا خبر کس سے کئے جائیں گے آسان سوال |
| لے گا تفصیل سے وہ کس کا بیاں جانتا ہے |
| اس کے اسرار و رمُوز اور کوئی کیا جانے |
| اس کا بندہ بھی اسے اتنا کہاں جانتا ہے |
| کس کو چاہت میں وفا کا ہے سلیقہ حاصل |
| اک وہی ہے جو دلوں کا یہ گماں جانتا ہے |
| ہم جو بھٹکے ہیں یہاں اپنی خطاؤں کے سبب |
| وہ جو عارف ہے وہی راہِ رواں جانتا ہے |
| بے بصیرت جو یہاں پر ہے وہاں بھی ہو گا |
| وہاں پہچانے گا اس کو جو یہاں جانتا ہے |
| ذرے ذرے میں عیاں اس کی عجب رعنائی |
| ہر طرف ایک وہی ہے یہ جہاں جانتا ہے |
| صرف عاشق ہی سمجھ سکتا معشوق کی بات |
| جس نے قرآن پڑھا رب کی زباں جانتا ہے |
| اس کے دربار میں ہو جس کو رسائی حاصل |
| وصل کا پھر وہی پُر کیف سماں جانتا ہے |
| دل کے پردوں میں چھپی بات سے واقف ہے وہ |
| اک وہی دل کے سبھی راز نہاں جانتا ہے |
| خوب پہچانے وہ انداز وفا کے طارِق |
| کون اس کے لیے دے سکتا ہے جاں جانتا ہے |
معلومات