کوئی چہرہ ، ترے جیسا حسیں ، رسوا نہیں ہوتا |
عدو جو سوچ رکھتا ہے کبھی ، ویسا نہیں ہوتا |
جہاں میں جو نظر آئے ، وہ سایہ ہے تمہارا ہی |
تمہارا ذکر ، ہونا چاہیئے جیسا ، نہیں ہوتا |
جو سطحی سوچ سے نکلو تو باطن بھی نظر آئے |
مگر ظاہر کی دنیا میں یہ ہنگامہ نہیں ہوتا |
جو مکتب میں پڑھا، سب تھا فقط گفتار کی حد تک |
محبت کا سبق تو دل کا آئینہ نہیں ہوتا |
خودی جب تک نہ مٹ جائے، وہ چشمہ پھوٹتا کب ہے |
انا کے کو ہ سے بہتا کوئی جھرنا نہیں ہوتا |
نہ ہر آواز حق ہے اور نہ ہر خاموشی گونگی ہے |
کبھی لب پر وہ آ جائے ، جسے سوچا نہیں ہوتا |
بقا در مرگ ، پنہاں راز ہے جو زندگانی کا |
جو جیتا ہے فقط ظاہر، وہی زندہ نہیں ہوتا |
خموشی میں جو گریہ ہے، وہی سچ بولتا ہے بس |
صدا دل کی ، تو عرفاں کا ، ہر اک نعرہ نہیں ہوتا |
طلب وہ ہے، جو دل کو خاک کر دے ایک لمحے میں |
مگر اہلِ خرد کے ساتھ یہ سودا نہیں ہوتا |
قدم جب تک نہ رستے میں ، ترے رکھے ترا بندہ |
کوئی در تیرے گھر کا خود بخود تو وا نہیں ہوتا |
تمہاری داستاں طارقؔ ، کہو کیا ہے الگ سب سے |
محبّت میں ، سنا کرتے ہیں سب اچھا نہیں ہوتا |
معلومات