آدھے رستے چھوڑ کے جانا کہتے ہو غدّاری ہے
جو بھی جگ میں آیا اس کے چلنے کی تیاری ہے
خود کو انساں کہلانا یہ بھی اک ذمّے داری ہے
تم کو کیا احساس ہوا یہ بوجھ بھی کتنا بھاری ہے
گردِ تمنّا سے آلودہ دل کی ساری گلیاں ہیں
کوچۂ عشق میں ہر اک عاشق زخموں کا بیو پاری ہے
سپنے کون دکھاتا ہے پھر سچ کرتا ہے سپنوں کو
گردش سورج چاند زمیں کی سوچو کیسے جاری ہے
کوئی نہیں گر حادث پھر کیوں حادثے ہوتے رہتے ہیں
الٹی سیدھی سوچوں نے کیوں عقل تمہاری ماری ہے
ایک زمیں سے چشمے پھُوٹیں جب پھر حیرت ہوتی ہے
اک جانب کیوں میٹھا پانی اک جانب کیوں کھاری ہے
ایسے بھی ہیں اس کی ہستی سے ہی جو انکار کریں
پھر بھی رزق انہیں دیتا ہے ربّ کی یہ ستّاری ہے
طارق ہو انکار بھی کیسے عقل و خرد کے ہوتے ہوئے
اس کی حکومت ہر ذرّے پر ہر پل دیکھو جاری ہے

0
7