| دل سے میرے وقتِ خلوت جیسے اک سایہ گیا |
| جو لکھا تھا لوح پر وہ خواب دکھلایا گیا |
| تیرگی کے راز سارے دل نے خود افشا کیے |
| ایک چپ تھی ایک لمحہ مجھ کو سمجھایا گیا |
| چشمِ دل کو جب کھلا اک موجِ نورِ بے حجاب |
| نام کب اُس کا لیا آنکھوں سے کہلایا گیا |
| ہجر میں جو سوز آیا وصل میں وہ گل ہوا |
| جو کبھی کھویا چمن اس سے ہی مہکایا گیا |
| عشق کی راہوں میں میں تھا اور نہ کوئی رہنما |
| ہر قدم سوچا گیا اور مجھ سے اٹھوایا گیا |
| خود کو پایا خود کو کھویا پھر ملا ہے آئینہ |
| آئنے کے پار پھر دل کو بھی دھلوایا گیا |
| بادباں خوابوں کے تھے اور دل کی تھی ناؤ مری |
| ڈوبنے سے پیشتر مجھ کو بھی بہلایا گیا |
| جب طلب کی آنچ کم ہو تب عطا کی بات کر |
| دل کو بھایا وہ مگر جو بے طلب پایا گیا |
| روح کو اس لمسِ نازک کا بھی کچھ احساس تھا |
| آنکھ نے جو کچھ بھی دیکھا دل کو تڑپایا گیا |
| ذکر میں مستی میں طارق اور فنا کے باب میں |
| آئنے میں ایک ہی چہرے کو چمکایا گیا |
معلومات