| سبق سکھایا جو فطرت نے مجھ کو ازبر تھا |
| مری زباں پہ وہی تھا جو دل کے اندر تھا |
| خدا بنا کے سجایا نہیں ہے مندر میں |
| ہٹا دیا جو مرے راستے کا پتھر تھا |
| چراغ دل کا جلایا نہیں تھا محفل میں |
| وہ سامنے تھا ، وہی روشنی کا منظر تھا |
| محبتوں کا صلہ مانگتا بھلا کیسے |
| ملا مجھے جو عطاؤں کا اک سمندر تھا |
| وفا کا قصہ کوئی کب بیاں کیا میں نے |
| جو نام آیا تھا لب پر، مرا وہ دلبر تھا |
| اسی کا نام لبوں پر رہا دعا کے وقت |
| وہی تھا دل میں وہی زندگی کا محور تھا |
| چراغ بجھنے نہ پایا کبھی اندھیروں میں |
| کھڑا ہمیشہ مرے ساتھ میرا رہبر تھا |
| میں خاک چھان کے آیا ہوں ساری دنیا کی |
| نظر نہ آیا مجھے اور کوئی گوہر تھا |
| فقیر مانگ رہا تھا جو درد رستوں پر |
| میں جانتا ہوں کوئی عشق کا وہ پیکر تھا |
| کیا تھا میں نے حقیقت سے رُوشناس اس کو |
| مگر وہ شخص تو خوابوں کا ہی سکندر تھا |
| جو زور شور سے ٹکرائی آ کے ساحل سے |
| وہ موج ٹوٹی ہے طارق ؔ یہی مقدّر تھا |
معلومات