| ضامن ہوں تیرے امن کا میں رہبروں میں ہوں |
| اور تُو سمجھ رہا ہے مجھے رہزنوں میں ہوں |
| تجھ کو نہ آج تک کبھی احساس ہو سکا |
| میں دوستوں میں ہوں کہ ترے دشمنوں میں ہوں |
| بیمار تیری روح کا کیسے کروں علاج |
| ہے فکر مجھ کو میں ترے چارہ گروں میں ہوں |
| فطرت سے میری فرضِ عبادت نہیں گیا |
| ہر وقت رب کے مسکنوں میں ، معبدوں میں ہوں |
| مجھ پر ہوئے ہیں اِس قدر احساں ، نہیں شمار |
| میں بھی کسی کے واسطے تو محسنوں میں ہوں |
| میرے قریب آ کے مجھے غور سے تو دیکھ |
| ہو جائے دل گواہ ترا ، ساجنوں میں ہوں |
| زلفوں کے بل سنوارنے میں وقت ہے پڑا |
| میں زندگی سنوارنے کی الجھنوں میں ہوں |
| سچ بولنے کا حوصلہ تجھ کو نہیں ہوا |
| چاہے گا کون اُس کے عدو درجنوں میں ہوں |
| اتنا غرور ، سر کو جھکانے میں عار ہے |
| جیسے پڑی سلاخیں کوئی گردنوں میں ہوں |
| کردار کی مہک سے ہے گرویدہ اک جہاں |
| خوشبو کی طرح پھیلے ہوئے گلشنوں میں ہوں |
| مینار مسجدوں کے گرائے گئے جہاں |
| کتبوں کو جن کے توڑا گیا مدفنوں میں ہوں |
| جن کے نقوشِ پا سے ملے قُدس کا مقام |
| میں ایسے پارساؤں کی ہی قُربتوں میں ہوں |
| جس کو سمجھ نہ پائے وہ ، طارقؔ ہوں خیر خواہ |
| جکڑا گیا حریفوں کی میں قدغنوں میں ہوں |
معلومات