| سارے عالم میں ہیں احباب بکھرتے جاتے |
| کاش حالات وطن کے ہی سُدھرتے جاتے |
| عید کے دن سبھی احباب ملا کرتے تھے |
| اب تو ہے فکر کہ جذبے ہیں یہ مرتے جاتے |
| آگے بڑھ کر ہوں بغل گیر یہ کب ہے ممکن |
| اب تو پہچان سے ہیں لوگ مُکرتے جاتے |
| ہم ابھی بھولے نہیں وقت وہ بیماری کا |
| ہو نہ زحمت کسی گھر میں تھے نہ ڈرتے جاتے |
| دل میں ہوتی تھی سدا یادِ خدا ، دست بہ کار |
| ذکر بھی کرتے تھے کچھ کام بھی کرتے جاتے |
| کوئی نقطہ بھی جو آ جاتا کبھی زیرِ بحث |
| آئینے دھلتے تو سب عکس نکھرتے جاتے |
| سخت نقّادوں کی محفل کا اثر ہے تجھ پر |
| یہ تکلف تو سخن میں نہیں برتے جاتے |
| ہے گِلہ شکوہ اگر کوئی تو اظہار کرو |
| زہر خاموشی سے دل میں نہیں بھرتے جاتے |
| یاد ہے ایسے بھی ملتے تھے کبھی سادہ سے لوگ |
| قُرب میں پیار کے جذبات ابھرتے جاتے |
| طارقؔ اس دور میں بھی لوگ ابھی زندہ ہیں |
| جن کی صحبت میں ہیں اخلاق سنورتے جاتے |
معلومات