رفاقتوں میں بھی حیرانیاں تو ہوتی ہیں
“کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہوتی ہیں”
وفا کے کوچے میں جلتے ہیں دل دیے بن کر
محبتوں میں یہ قربانیاں تو ہوتی ہیں
وہ ہنس کے جب ملے ، دل رو کے یاد کرتا ہے
دکھوں کی آنیاں اور جانیاں تو ہوتی ہیں
درِ حقیقتِ جاں تک پہنچنے والے کو
وصالِ یار کی آسانیاں تو ہوتی ہیں
جو بادشہ کا مصاحب ہو ، وہ سمجھ پائے
جہاں پہ تخت ہو ، دربانیاں تو ہوتی ہیں
خدا کے قرب کی چاہت اگر رہے دل میں
قریب آنے سے طغیانیاں تو ہوتی ہیں
صبا نے چھیڑ کے کانوں میں کچھ کہا لیکن
خیالِ یار کی نگرانیاں تو ہوتی ہیں
وصالِ یار میں پردے اگر نہ اٹھ پائیں
جو ہو نہ ظرف ، پشیمانیاں تو ہوتی ہیں
کسی کو ہاتھ سے کرتے ہیں روز رخصت یاں
جہاں میں دکھ ، یہ پریشانیاں تو ہوتی ہیں
فرازِ عشق پہ پہنچا اگر کبھی طارقؔ
اسے خبر ہے ، ثنا خوانیاں تو ہوتی ہیں

0
5