‏‎نظر جھکی ہے ، مرے اشک بار ور کر دے
‏‎تُو اپنا نام مرے لب پہ معتبر کر دے
‏‎وفا کا راستہ دشوار ہے ، طویل بھی ہے
‏‎میں تھک نہ جاؤں ، سفر میرا مختصر کر دے
‏‎تری جدائی نے صدیوں کا نقش ثبت کیا
‏‎یہ نقش دل کا لہو سے نہ کوئی تر کر دے
‏‎کہاں کہاں تری یادوں کا سلسلہ پہنچا
‏‎مری صدا کو کسی دل پہ با اثر کر دے
‏‎چراغ بُجھ نہ سکیں تیرگی کے طوفاں میں
‏‎مری دعاؤں کو کچھ ایسا با ثمرکر دے
‏‎ہزار بار دعا کی ہے ، دل جو ٹوٹا ہے
‏‎مری شکست کو بھی میرا اک ہنر کر دے
میں خاکسار ہوں ، نظریں جھکائے بیٹھا ہوں
‏‎کَرَم کی مجھ پہ نظر کر کے درگزر کر دے
یہ غم کی ساعتیں اب روز و شب کو گھیرے ہیں
‏‎کوئی کرن مری تقدیر کو قمر کر دے
‏‎مرے سکوت میں پنہاں ہیں داستانیں کئی
‏‎مرے کلام کی لوگوں کو کچھ خبر کر دے
‏‎مرے قلم کو وہ جذبے عطا ہوں اب طارقؔ
‏‎مرے سخن کو مرے ساتھ نام ور کر دے

0
4