جہاں دریا سمندر کو سرِ ساحل نہیں ملتا |
بھٹک جاتی ہیں قومیں رہبرِ کامل نہیں ملتا |
کمی عقل و خرد کی دیکھنے میں کب نظر آئے |
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قا بل نہیں ملتا |
چھپائے سانپ پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں |
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا |
مجھے الزام دیتے ہو کہ حق سے دور ہوں گویا |
مرا دل چیر کر دیکھو کہیں باطل نہیں ملتا |
مرے اطراف میں ہر سُو ہیں سچائی کی دیواریں |
کوئی جھوٹا مرے گھر میں ہوا داخل نہیں ملتا |
مرے حق میں سبھی ہوں فیصلے ممکن نہیں لیکن |
کوئی منصف وطن میں اب مرے عادل نہیں ملتا |
نجاست ہے اگرچہ بت پرستی شرک کی رسمیں |
خدا کی معرفت پائے جو وہ عاقل نہیں ملتا |
نظر آیا نہ عالِم اس جہاں کو چھان کر دیکھا |
جو کہلاتا ہے فاضل علم کا حامل نہیں ملتا |
بہت سے جادو ٹونہ کر بھی دیتے ہیں جہاں والے |
مگر ہو کارگر کوئی جو وہ عامل نہیں ملتا |
چنا تھا رہنما تجھ کو مسلماں جان کر میں نے |
ترے جیسا مجھے کوئی مگر غافِل نہیں ملتا |
تڑپتا ہے زبوں حالی پہ امت کی سدا طارق |
غلَط ہے گر کہے کوئی یہاں بسمل نہیں ملتا |
معلومات