| دھوپ سہتے رہے، سایہ نہیں ہونے پایا |
| پھر بھی دنیا کا تماشا نہیں ہونے پایا |
| اپنے خوابوں کی رفاقت میں رہا دل مصروف |
| اس کڑی دھوپ میں صحرا نہیں ہونے پایا |
| تیرگی کاٹ دی ، اور شمع جلائے رکھی |
| پھر بھی کہتے ہیں ، اجالا نہیں ہونے پایا |
| جس کے رُخ پر ہو سجا غازۂِ دنیا ہر پل |
| اس کا چہرہ کبھی اپنا نہیں ہونے پایا |
| ذکر میرا نہ ہوا ، ہو گیا انجام بخیر |
| سامنے سب کے میں رسوا نہیں ہونے پایا |
| شب گزاری میں تھا امید کا دیپک روشن |
| کیوں مگر صبح ، سویرا نہیں ہونے پایا |
| پاس چاہت کے گلابوں کی ہے خوشبو طارقؔ |
| اس لئے دل کبھی تنہا نہیں ہونے پایا |
معلومات