اک دن خدا کے سامنے جاؤ گے یا نہیں
خود اپنا حال اس کو بتاؤ گے یا نہیں
جاؤ گے جب بلائے گا سب سر کے بل وہاں
پھر اس کے در پہ سر کو جھکاؤ گے یا نہیں
دنیا سے ڈر کے سچ کو چھپایا مگر وہاں
کیا سچ سے روشناس کرا اوگے یا نہیں
اک ایک کر کے جھوٹ کی پرتے کھلیں گی جب
کیا شرم سے یہ چہرہ چھپاؤ گے یا نہیں
ہم اپنے اعتبار کا کیا کیا ثبوت دیں
اب اور کوئی آگ جلا اوگے یا نہیں
چاہت میں اس کی زخم کھا کے سوچتے ہیں کب
تر کش سے اور تیر چلاؤ گے یا نہیں
ہم پی رہے ہیں میکدے میں کب سے دوستو
پوچھو تو ہم سے ہم کو پلاؤ گے یا نہیں
دیکھے ہیں مانتے ہو اگر دل سے کچھ نشاں
کچھ بوجھ دل کا ہم سے بٹا اوگے یا نہیں
کب تک چلو گے دشت میں پانی لئے بغیر
تم اپنی تشنگی کو بجھا او گے یا نہیں
عیسیٰ کے انتظار میں کب تک رہو گے تم
تربت پہ اس کی پھول چڑھاؤ گے یا نہیں
وہ آگیا مسیح بدلنے تمہارے دل
اب اس کا جشن مل کے منا او گے یا نہیں
طارق ہوا فریفتہ ہے اس کو دیکھ کر
تم بھی تو اس سے دل کو لگاؤ گے یا نہیں

0
3