چشمِ یاراں میں چھپا رازِ کہن افشاں تو ہو
اک نظر میں وہ اگر دیکھے تو دل قرباں تو ہو
سنگ دل کتنا سہے گا ہجر کی مجبوریاں
سامنے آ جائے وہ پورا کبھی ارماں تو ہو
تیری خاطر ترک جب سب کچھ کیا سوچا تھا یہ
تیری فرقت ہی عبادت کا ذرا ساماں تو ہو
دل ترا تسلیم کی منزل میں ٹھہرا لے کہیں
خاکِ درگاہِ محبّت قبلۂ پنہاں تو ہو
نام تیرا لے کے نکلے جان بھی جاتے ہوئے
عشق ایسا ہو کسی کے درد کا درماں تو ہو
اک تبسُّم تیری زلفوں کی گھٹا کی اور سے
اک نظر پڑ جائے تیری رحمتِ باراں تو ہو
میں تو فانی تھا مجھے تجھ میں فنا ہونا ہی تھا
تیری جانب سے مگر اب رشتۂ یاراں تو ہو
پھر کہو گے دشت سے آتی ہے مجنوں کی صدا
سائبانِ زلفِ لیلٰی بھی ذرا حیراں تو ہو
کون سنتا ہے فقیرانہ تمنّا کی ندا
تُو اگر سن لے تو شکوہ تجھ سے کچھ آساں تو ہو
زندگی بیتی تصور میں ہے طارق وصل کے
رائیگاں ہو گی نہیں پر وسعتِ داماں تو ہو

0
1