‏‎دل کو دیکھا دل کے اندر اک اجالا ہے ابھی
‏‎راہ الفت کے مسافر کو سنبھالا ہے ابھی
‏‎خاک کی صورت نہ دیکھو اس میں جلتا ہے چراغ
‏‎زیرِ پردہ آتشیں اک شعلہ پالا ہے ابھی
‏‎تشنگی ہے اور ساقی آ گیا ساغر لیے
‏‎ دل کا مے خانہ صنم کِتنا نرالا ہے ابھی
‏‎عشق کی آندھی چلے تو شمع بھی رقصاں رہے
ہنس کے بھی تو دل ہی دل میں غم ہی پالا ہے ابھی
‏‎پل دو پل یادِ حقیقت دل فراموشی کرے
اس کے صحیفوں میں بھی سپنوں کا حوالا ہے ابھی
‏‎کب تلک ہم فاصلوں میں قید رہ پائیں گے یار
‏‎تم بھی کہتے ہو کہ رستہ گرد والا ہے ابھی
‏‎کون جانے جسم و جاں کے بیچ ہے کیسا سفر
‏‎گو ملے ہیں دل پہ لیکن کوئی تا لا ہے ابھی
‏‎مے کشی مستی جنونِ ذات میں سب ایک ہیں
‏‎جو بھی دیکھے گا کہے گا عشق بالا ہے ابھی
ہم کوئی موسم بھی ہو جھک جاتے ہیں اس کے سامنے
‏‎آسماں پر بھی کسی نے رعب ڈالا ہے ابھی
ہم نے سدا ہی سوچ کر اس سے کہا جو بھی کہا
اس کی چبھن کا حل کسی نے کیا نکالا ہے ابھی

0