سفر پہ جب چلے ، منزل بتا نہیں آئی ؟
اگر تھی دھوپ تو چھاؤں بھی کیا نہیں آئی
جو تم نے عہد کیا تھا ، وفا نبھانے کا
تمھارے لہجے سے ، اس کی صدا نہیں آئی
ہم آئنہ تھے، تو صورت تھی اس میں کس کس کی
گئی وہ روشنی ، مُڑ کر ضیا نہیں آئی
سجائے بیٹھے رہے ، درد ، شب کے چہرے پر
تمھارے لب پہ ہی کوئی دعا نہیں آئی
جفاؤں کا بھی گلہ تم سے ہم کہاں کرتے
جو سنتے دوسرے ، کہتے ، حیا نہیں آئی
محبتوں کے سفر میں چلے ہیں تنہا ہم
خبر تو سب کو تھی، سب کو وفا نہیں آئی
ہمارے دل نے تمہیں پیار کا پیام دیا
پسند تم کو ہماری ادا نہیں آئی
گئی ہے جب سے، سکوں ہم سے ہو گیا رُخصت
ہمیں بلانے کو طارقؔ ، صبا نہیں آئی

0
4