عشق کی بستی میں روشن ، نورِ عالم ہے مرا
آئنے میں جب بھی اترا ، عکس پیہم ہے مرا
خلوتِ جاں میں صدا ہے، مثل اذکارِ حضور
ذکر میں ڈوبا ہوا یہ قدسِ مریم ہے مرا
تیرہ صحراؤں میں بھی نغمہ سنائی دے گیا
زخم دل کا بن گیا اب نَے کا موسم ہے مرا
جسم مٹی ، رُوح تو میری سراپا نور ہے
دشتِ جاں میں ایک خورشیدِ دو عالم ہے مرا
بے خودی میں میں ہوا ہوں سوز کا آئینہ دار
کیا تعجب ، جب محبت ہی کا پرچم ہے مرا
تیری آنکھوں کی قسم! تیرے لبوں کی داستاں
رازِ ہستی کا سراپا موجِ زمزم ہے مرا
دل کی بستی میں ترا چرچا نہیں چھپتا کبھی
زخم لگنے کے ہر اک منظر میں مرہم ہے مرا
زیست میں طارقؔ، رہا دونوں سے میرا واسطہ
پھول کانٹوں سے مسلسل ، ربط باہم ہے مرا

0
3