| دکھائی دے گا جو سب کو نشاں نیا ہو گا |
| سحر جو لائے گا ، شمس الزّماں نیا ہو گا |
| جو تھک چکے ہیں سفر میں، انہیں خوشی ہوگی |
| وہ آ ملیں گے جسے ، کارواں نیا ہو گا |
| یہ دکھ جو ساتھ لیے ہم چلیں ہیں برسوں سے |
| کبھی تو ان کا بھی کوئی بیاں نیا ہو گا |
| نئے خیال میں ڈھلتی ہوئی فضاؤں میں |
| نہ کر گمان ترا راز داں نیا ہو گا |
| اندھیری رات کے دامن میں روشنی دیکھو |
| ہے کہکشاں تو وہی ، آسماں نیا ہو گا |
| عجیب حال مسافر کا ہو گا منزل پر |
| خوشی کے ساتھ اگر غم رواں نیا ہو گا |
| جہاں پہ ختم ہو رستہ، نگاہ دوڑانا |
| کہ نقشِ پا سے بنا اک جہاں نیا ہو گا |
| خزاں کے دور سے مایوس ہو نہیں جاتے |
| وہ وقت آئے گا جب گلستاں نیا ہو گا |
| نئے سفر میں ملیں گے ہمیں پرانے دوست |
| نہ کوئی چہرہ پرانا، وہاں نیا ہو گا |
| گزر چکی ہے جو ساعت، پلٹ نہیں سکتی |
| نئے جنم میں نہ اب امتحاں نیا ہو گا |
معلومات