| چراغِ دل جلا مقصودِ جاناں تک رسائی ہو |
| نگاہِ شوق نے آتش محبّت کی جلائی ہو |
| لبوں پر حمد جاری دل کی ہر دھڑکن ہو سجدے میں |
| خیالوں نے تری ہی یاد کی محفل سجائی ہو |
| مسافت ختم ہو جائے انا کا بوجھ گر جائے |
| رگِ جاں میں فقط اک التفاتِ کبریائی ہو |
| خودی کا بوجھ چھُوٹے نفس کی زنجیر بھی ٹوٹے |
| سنائی دے صدا تجھ کو مبارک یہ رہائی ہو |
| بہیں اشکوں کے دریا جب گناہوں کی تہیں دھو دیں |
| کہ ہر سجدے میں دل کے سارے خانوں کی صفائی ہو |
| سماعت کے لئے خلوت میں گونجے سازِ تنہائی |
| لبوں سے ہر طلب چھُوٹے جو اُس سے آشنائی ہو |
| یہ دنیا دھوپ کا صحرا وہ سایہ عرش کا مہدی |
| قدم جب تھک کے بیٹھیں ذکر کی بادِ صبائی ہو |
| نہ باقی رہ سکے پردہ نہ کوئی فاصلہ باقی |
| جو ہو دیدار کا لمحہ مقامِ انتہائی ہو |
| خدایا یوں اترتے ہی رہیں مضمون طارق پر |
| شناسا گر تری میرے قلم کی روشنائی ہو |
معلومات