کیا پوچھتے ہو مجھ سے سوالِ جمالِ دوست
ہر رنگ مثلِ چشمِ غزالِ جمالِ دوست
صحرا ہو گلستاں ہو اندھیرا کہ صبح ہو
ہر دل دلِ نہالِ کمالِ جمالِ دوست
میں خاک کا بنا ہوں مری عرش پر دعا
جب لب پہ میرے ذکرِ جلالِ جمالِ دوست
میں خانۂ خدا کے دریچے میں ہوں کھڑا
پر دل تو چاہے بوسۂ حالِ جمالِ دوست
ہر اشک شوق کا مری آنکھوں سے ہے رواں
ہر موج ایک موجِ وصالِ جمالِ دوست
کعبہ ہو یا ہو دیر سبھی راستے عیاں
دل میں ہے میرے نُورِ خیالِ جمالِ دوست
میں بزم میں کھڑا ہوں مگر خالی ہاتھ ہوں
ساقی نہ کچھ پلا بتا حالِ جمالِ دوست
اے ہجر تیرا درد بھی ہے وصل کا پیام
ہر زخم میں ہے نغمۂ لالِ جمالِ دوست
اے عشق تو ہی اصل حقیقت تو ہی منزل
ہر راہ میں یہ دل ہے نہالِ جمالِ دوست
اُس کی بس اک جھلک نے دُنیا بدل کے رکھ دی
طارق سخن میں اب ہیں ظلالِ جمالِ دوست

0
3