خوشی سے میں گھر میں جلاؤں چراغ
بس اک بار مل جائے تیرا سراغ
میں خاموش رہتا ہوں ، جھکتا نہیں
سمجھ لے نہ کوئی مجھے بد دماغ
ترے عشق میں جاگتی ہے یہ رات
نظر چاند میں گرچہ آتا ہے داغ
میں صحرا کی وسعت میں تنہا کھڑا
نہ چیل آسماں پر ، نہ بو لیں ہیں زاغ
یہ کیسی طلب ہے، یہ کیسا ملاپ
نہ کردار پر کوئی لگ جائے داغ
ٹھہر جاؤں کچھ دیر سستا ہی لوں
ثمر دار مل جائے کوئی جو باغ
کبھی خواب میں تیرا چہرہ ملا
کبھی راکھ میں ڈھونڈتا میں فراغ
وفا کی قسم، میں نے مانگی دعا
کہ ٹوٹیں نہ امید کے سب چراغ
تری راہ میں عمر گزری تمام
بچا ہی نہ کچھ اور خواہش کا باغ
سخن دیکھ حیرت میں گم ہو گئے
جو دیکھا ہے شعروں میں ایسا بلاغ
بتایا بھی تھا میرا دامن ہے صاف
تو ساقی نے کیوں بھر دیا ہے ایاغ
مجھے صبر نے دے دیا حوصلہ
اسی سے ہے طارقؔ یہ روشن دماغ

0
2