چل پڑا جب تو ساتھی ، صبا ہے مرا
زخم دل کا ابھی تک ہرا ہے مرا
آئنہ دل پہ روشن ہوا ہے مرا
زندگی جیسے جلتا دیا ہے مرا
خار ِ رَہ میں بھی لُطفِ جفا ہے مرا
زہر پی کے بھی شوقِ وفا ہے مرا
اشک آنکھوں میں رنگِ حیا ہے مرا
جسم ، مٹی میں بھی باصفا ہے مرا
درد بن کے لبوں کی دعا ہے مرا
کرب کے بیچ لطفِ رضا ہے مرا
موت لائی پیامِ فنا ہے مرا
مر کے جینا مقامِ بقا ہے مرا
یاد تیری ہی گویا بھلا ہے مرا
زخم اندر سے اب تک ہرا ہے مرا
عشق در عشق یہ ماجرا ہے مرا
دل کا ہر زخم ہی مدعا ہے مرا
بے خودی میں جو رنگ اب ہوا ہے مرا
ہوش آتے ہی نقشِ صَفا ہے مرا
خلوتِ جاں کا ساتھی ، خدا ہے مرا
دیکھ لو وصل کا ماجرا ہے مرا
بس یہی و صل کا سلسلہ ہے مرا
طارق اب رہ گیا کیا بچا ہے مرا

0
3