Circle Image

محمد ندیم

@Nadeemgujjar

اردو شاعری

اب حوصلہ نہیں ہے کسی کی اڑان میں
انسان مبتلا ہے عجب امتحان میں
ٹوٹا اگر تو کچھ بھی نہ بچ پائے گا حضور
یادیں سنبھال رکھی ہیں دل کے مکان میں
لینے کی بات کیجیے وہ دور ہے کہ اب
سب کچھ ہی بک رہا ہے انا کی دکان میں

0
101
لوگ سارے کہاں مجبور ہوا کرتے ہیں
کچھ تو دانستہ کچھ اور دور ہوا کرتے ہیں
منزلِ غم پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے
بیوفائی کے بھی دستور ہوا کرتے ہیں
جن کے سینے میں محبت کی تڑپ ہوتی ہے
ان کے چہرے بڑے پرنور ہوا کرتے ہیں

0
102
کیسے بتائیں اپنوں سے کیسا صلا ملا
منزل ملی نہ ہم کو کوئی رہنما ملا
سب کچھ ہے آئینے کی طرح سامنے ترے
میں کیا بتاؤں مجھ کو زمانے سے کیا ملا
چاہت کے پھول جب سے کھلائے نصیب نے
ہر اک قدم پہ مجھ کو نیا حادثہ ملا

0
91
چاہتوں میں مت کبھی حد سے گذر کے دیکھنا
لوگ ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں پتھر دیکھنا
کتنی یادیں آئیں گی تم کو رلانے کے لئے
تم کتابوں میں کبھی اک پھول رکھ کے دیکھنا
ریت کے ساحل پہ اب تو بس یہی ہے مشغلہ
پہلے تیرا نام لکھنا پھر اسے مٹا کے دیکھنا

76
پھول بن کر میں تو ہر دل میں اتر جاؤں گا
بن کہ خوشبو میں ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
ہر نئے دن سے نیا عہد کیا جاتا ہے
روز خود سے میں یہ کہتا ہوں سدھر جاؤں گا
ہر نئے موڑ پہ پڑتا ہے غموں سے پالا
رنج و آلامِ سے بچ کر میں کدھر جاؤں گا

0
95
اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
ہم نے سوچا تھا کہ گھل مل کے زرا کم ہوگا
رنج بڑھتا گیا لوگوں سے شناسائی میں

5
159
وقت ساکن ہے سانس جاری ہے
بس ترے بعد یوں گزاری ہے
کسی آہٹ پہ چونکنا کیسا
جب ہے معلوم بے قراری ہے
رات کا روز یہ دلاسہ ہے
آج کی رات صرف بھاری ہے

201
ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک
بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے
وہ ہے خالی گھر کی صورت میں بھرا بازار ہوں
اُس کے جیسی خامُشی ہے میرے جیسا شور ہے
رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے

0
92
زخم دل کے سبھی چھپائے گئے
آنسوؤں سے دیے جلائے گئے
پوری کوشش ہمیں رلانے کی
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے
کیا بتائیں کہ کب ملی منزل
ہم تو ہر گام آزمائے گئے

90
وقت بے وقت قیامت تو نہ ڈھاؤں لوگو
درد پہلے ہی بہت ہے نہ ستاؤں لوگو
ہوش بھی عشق مرا عشق ہی مدہوشی ہے
میں تو دیوانہ ہوں تم ہوش میں آؤ لوگو
میرے سینے میں کبھی جھانک کے دیکھے کسنے
درد کے جلتے یہ ان گنت الاؤ لوگو

0
112
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف

0
14
160
زندگی رہ گزر ہے گزر جائیں گے
تم بھی مر جائے گے ہم بھی مر جائیں گے
ان کا شانہ نہیں ان کا انچل نہیں
چشم تر کیا یہ موتی بکھر جائیں گے
بند ہے یہ گلی اس پہ تیرہ شبی
ہم نوا یہ بتا ہم کدھر جائیں گے

0
87
اندیشہء زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
قزاق اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ

0
163
رستے میں ہاتھ چھوڑ کے دنیا سے ڈر گیا
اک شخص میرے واسطے زندہ ہی مر گیا
جن شدتوں سے وہ مرے سر پر سوار تھا
وہ جلد باز دل سے بھی جلدی اتر گیا
مانگا تھا زندگی سے جو کچھ روز کے لیے
مرهم نما وہ شخص بھی جانے کدھر گیا

0
129
اُس شخص کی تعریف بھلا کیسے بیاں ہو
جس شخص کو دیکھیں تو گلابوں کا گماں ہو
میں کون سے لفظوں سے اُسے یار سراہوں
جو پاؤں سے سر تک کوئی خوشبو کا جہاں ہو
کچھ شعر مِری آنکھ پہ کھلتے ہی نہیں ہیں
آواز تو دو مِیر کے دیوان کہاں ہو

0
228
ترے انتظار کی ریت پر
کوئی لفظ میں نے لکھا نہ تھا
کوئی حرف میں نے کہا نہ تھا
کوئی خواب میں نے چُنا نہ تھا
اسی انتظار کی ریت پر
مری آرزوؤں گلاب تھے

0
105
تو قریب اتنا مجھے شام و سحر لگتا ہے
دل کی شاخوں پہ محبت کا ثمر لگتا ہے
دیکھی ان دیکھی بہاروں کا اثر لگتا ہے
اور کچھ خوشیوں کے چھن جانے کا ڈر لگتا ہے
تو ملا ہے تو کہوں کیسے ملا کچھ بھی نہیں
آتشِ عشق ہے ایسی کے بچا کچھ بھی نہیں

0
119
چلی ہوا ترے منہ سے جب انکشاف چلے
مرے بھرے ہوئے کیسٹ مرے خلاف چلے
گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت
جو دھوپ چھاؤں میں لے کر ترا لحاف چلے
اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا
چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے

0
86
پھول کدھر جائے گا ٹوٹے گا بکھر جائے گا
خوشبو بن کے تری نس نس میں اتر جائے گا

0
80
زندگی تم سے بندگی تم سے
دل کے آنگن میں چاندنی تم سے
میرے سُر میری شاعری تم سے
میرے گیتوں میں نغمگی تم سے
آنکھ میں ہے تمہارا نُور بسا
دل میں رہتی ہے روشنی تم سے

0
85
یاد ہر ایک ہمیں وہ حسیں ساعت رہ گئی
آنکھوں کے در پہ سمندر کی علامت رہ گئی
سارے الفاظ مخالف میں تمہارے تھے مگر
جب ہوئے روبرو لہجوں میں محبت رہ گئی
بے اثر دستکیں فریاد صدائیں ہیں سبھی
غیر کے کھیل میں اپنوں میں رقابت رہ گئی

0
75
خمار عشق نے آنکھوں میں وہ حروف بھرے
کتاب کوئی ہو مضمون تیرا ہی ھوتا ہے !

0
83
بڑی ہے بات جو تم مان لیتے ہو
حسن والو ہماری کیوں جاں لیتے ہو

0
76
پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے
ہمیں نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی

0
93
تری آنکھوں پہ غزل کہنا بہت مشکل ہے
تری آنکھوں پہ تو قربان جوانی ہوگی

0
86
نظر پڑی کِسی تصویر پے تو یاد آیا
بہت عزیز تھی اِک شخص کو ہنسی میری

0
73
بس ایک ہی دسـتکِ غیبی کے اِنتظار میں ہم
تمام عمر بدن سراۓ میں ٹھہرے ہیں

2
119
آج تو ایک کام کرتا جا
میرا قصہ تمام کرتا جا
زخم جتنے بھی ہیں تمہی نے دیے
مرہموں کو بھی نام کرتا جا
طنز و دشنام ہی سہی چاہے
کچھ تو ہم سے کلام کرتا جا

19
229
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رَکھتی ہَے
مَیں گزَارُوں نہ گزَارُوں یہ گزَر جائے گِی

0
503
نا تھی پرواہ اپنی ذرا بھی مجھے
کھینچ لائی تھی بچوں کی بھوک یہاں

0
76
ہاتھ چُوم نے کی جب کی اِلتجا میں نے
تو مُسکرا کر کہنے لگئے صِرف ہاتھ کیوں

0
79
جانا ہوگا مجھے اجازت دے
خودکشی راہیں دیکھتی ہوگی !
وقتِ رُخصت کفن ہٹا کے مجھے
دیکھ لینا تُمھیں خوشی ہوگی !

0
89
چلا گیا تو نہ آئے گا پھر بلانے سے
تم اس کو روک لو یارو کسی بہانے سے
یہ چارہ گر یہ مسیحا فریب دیتے ہیں
ملے گا کچھ بھی نہیں حالِ دل سنانےسے
یہ بات بات پہ سیکھا ہے جو خفا ہونا
تو مان جانا بھی سیکھو ذرا منانے سے

0
85
دل سے نکال دیجئے احساسِ آرزو
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے

0
173
ہمیں مدت لگے گی بننے میں کچھ
جو ہیں وہ تو خدا بنے ہوئے ہیں

0
65
اور کیا عہدِ وفا ہوتے ہیں
لوگ ملتے ہیں جدا ہو تے ہیں
کب بچھڑ جائیں ھم راہِ ہی تو ہے
کب بدل جائے نظر ہی تو ہے
جان و دل جس پہ فدا ہو تے ہیں
بات نکلی بھی زمانے سے تھی

0
4
186
انسان تو کتنا بھی بہادر کیوں نا ہو
لیکن یہ محبت اسے رولا دیتی ہے

0
3
193
شاعری تو میں دل بہلانے کے لئیے کرتا ہوں ورنہ
دو الفظ کاغذ پر اتارنے سے محبوب کہاں ملتے ہیں

0
2
117
ٹھوکریں مارنے لگتا ہے لہو نس نس میں
کتنا دشوار ہے، تیرا مرا یکجا ہونا

0
73
لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر
وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ
جس کے تابع ہیں جنّات و انسان
فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــانِ
ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــاء
وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء

0
150
ایک مسُلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ہے
مجھکو تیرے ساتھ اپنا کل تلاش کرنا ہے

0
76
اُس کو سُن لوں تو سبھی درد سکوں لگتے ہیں
جانے کِس دھن سے وہ لفظوں کو ادا کرتا ہے

0
276
وہ جو تقدیر میں لکھے نہیں ہوتے
ان ہی کی آرزو کو عشق کہتے ہیں

0
78
کیا کریں ایسی خوشی کو جو بھکاری کر دے
ہم کو جاناں ترے بخشے ہوۓ غم اچھے ہیں

0
53
دل کے سب زخم قرینے سے سجا رکھے ہیں
جو مگر تجھ سے ملے سب سے چھپا رکھے ہیں
جو ہمیں دیکھ کے ہنستے ہیں انہیں کیا معلوم
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
کوئی روٹھے ہوئے ساتھی کو ذرا سمجھائے
سب گلے ہم نے محبت میں بھلا رکھے ہیں

0
86
دسمبر ہوش کر پاگل یہ تجھ کو کیا ہوا آخر
بنا برسے گزر جانا تری فطرت نہ تھی پہلے

0
133
خدا کا شکر مجھے عشق ہو گیا ورنہ
میں تجھ پہ خرچ نہ ہوتا تو رائیگاں جاتا

0
119
مِیاں آہل سُخَن کی دوستی بِھی
ہُوا کرتی ہے تَقریباً مُحبّت

0
80
وہ مسکرا کے دیکھ لیں میری طرف کبھی
بس اُن کی اک نگاہ کی قیمت ہے زندگی

0
55
چل اپنے جیسے گنہگار ڈھونڈ آتے ہیں
نہیں ہیں راس ہمیں رنگ صوفیوں والے
کوئی بلائے تو خط پھاڑ دینا،مت آنا
یہاں مزاج ہیں لوگوں کے کوفیوں والے

0
497
پوچھا محبتوں کے زمانے کدھر گئے
بولی وہ موسموں کی روانی میں گِھر گئے
پوچھا وابستگی سے تھے کچھ لوگ کیا ہوا
بولی گھٹائیں چھا گئیں سب اپنے گھر گئے
پوچھا کہ میرے بعد کوئی مجھ سا بھی ملا
بولی نہیں ملا ہمیں ہم ہر نگر گئے

0
122
تُمہاری دی ہوئی ہر چیز مُجھ کو پیاری ہے
تُمہارے ہجر میں بھی بن سنور کہ رہتی ہوں

0
44
محبت درد بکھرا سا
محبت لفظ نکھرا سا
محبت آنکھ کا پانی
محبت رات کی رانی
محبت بےتکی تہمت
محبت نور کی مورت

0
76
میرے حالات پہ مسکراہ تو صاحب
یہ دعا ہے تمہیں بھی عشق ہو جائے

0
61
وہ الم کشوں کا ملنا وہ نشاط غم کے سائے
کبھی رو پڑے کبھی زخم ندیم مسکرائے

0
225
دسمبر جا خدا حافظ بہت دکھ درد بانٹے ہیں
کوئی روٹھا کوئی بچھڑا کسی کو چھوڑ آئے ہیں

0
136
نام کو تمہارے اک ہے مقام دے رکھا
لوگ بات منوالیتے ہیں ذکر تیرا کر

0
52
ہر شام یہ کہتے ھو کہ کل شام ملیں گے
آتی نہیں وہ شام ہی جس شام ملیں گے
اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا
کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے
آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے بہانے
ڈرتے ھو ڈراتے ھو کہ الزام ملیں گے

0
346
میری آنکھوں میں نہ ڈھونڈا کرو آنسو میرے
میں نے سینے میں چھُپا رکھا ہے ہر غم اپنا

0
112
کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہُوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بَسر کیسے ہُوئے
نینْد کب آنکھوں میں آئی کب ہَوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے ویراں نگر کیسے ہُوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کِس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرف دارِ ہوائے رہگُزر کیسے ہُوئے

0
66
بڑی ہی شدت سے آزماتے ہو صبر میرا
کبھی جو خود پے گزاری تو بکھرہ ہی جاو گے

0
66
خاموش سی آنکھوں سے جب بات ھوتی ہے
ایسے ہی محبت کی شروعات ھوتی ہے
تیرے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے رہتے
پتا نہیں کب دن کب ہی رات ھوتی ہے

0
42
کسی کو کیا بتاتی میں
کسی کو کیا سُناتی میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگین افسانہ
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے

0
103
اور جن کی زیادہ قدر کر لی جائے
وہ ہمیں گر ہوا ہی سمجھ لیتے ہیںً

0
48
لبوں کو پھول تو پھولوں کو لب کہا میں نے
بہت ہی پہلے جو کہنا تھا اب کہا میں نے
میں اس بہانے سے ہر بات دل کی کہتا ہوں
ہو شاعری میں بڑا نام کب کہا میں نے
میں سوچ سوچ کہ پاگل ہوا اسی ہی مشل
وہ رویا تھا میری جان جب کہا میں نے

0
73
بجھتا ہوا چراغ بھلا کیا دعا کرے
کہہ دو ہوا سے آج ذرا حوصلہ کرے
بندِ قبا جو کھول کے خوشبو صدا کرے
کیسے نہ چشمِ ناز کو یہ دل شفا کرے
جانے کہاں بچھڑ گئے تھے اپنی ذات سے
ہم کشت گان ہجر ہیں کوئی پتہ کرے

0
74
مشکل بڑی تھی دشتِ محبت کی سَیر بھی
اکڑے تھے اس سفر میں کئی بار پَیر بھی
تجھ سے کسی بھی ربط کی خواہش نہیں رہی
جب دوستانہ ختم تو پھر ختم بَیر بھی
ہر بار ایک رخ نیا آتا ہے سامنے
وہ جتنا آشنا لگا اتنا ہی غَیر بھی

0
71
نئے برس میں محبّت نئی کریں گے ہم
کسی کے ہجر کا یہ آخری مہینہ ہے

0
254
جس نے تنہائی کی بانہوں میں گزاری ہو حیات
تو اسے چھوڑ کے جانے سے ڈراتا کیا ہے
میری جیبوں میں محبت کے ہیں سکے لیکن
آج کے دور میں انکو سکوں سے آتا کیا

0
227
اب محبت کی بات مت کرنا اے دل
زخم پہلہ بھی ابھی سیلہ نا ہے

0
54
تیری آنکھوں کی کشش کیسےتجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے مری نیند اُڑا رکھی ہے

0
48
تُمھارے ساتھ تَخیُّل کے کورے کاغذ پر
میں دن بناتی رہی اور شام ہوتی رہی

0
80
خود کلامی میں راتیں گزر جائیں گی
ہفتہ گزرے گا عمریں گزر جائیں گی
ایک خط میں لکھوں گا بنامِ خدا
پہلی سطروں میں آہیں گزر جائیں گی
اس کی یادیں نہیں آئیں گی اِس طرف
گھر کے باہر سے راہیں گزر جائیں گی

0
59
سرخ سنہری پیلی کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دیکھ کے چھتری کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دریا پار سے دیکھا کرتے تھے
پھر بستی میں کشتی کی ایجاد ہوئی
میں نے تیرے ہاتھ پہ اپنا نام لکھا
اور دنیا میں تختی کی ایجاد ہوئی

0
75
یہ جان کر بھی کہ تُو اپنی دَسترس میں نہیں
وفا کا کھینچ دیا اِک حِصار بس یونہی

0
93
زندگی حقیقت میں بس میں اتنا ہی جانا
درد میں اکیلے ہیں خوشیوں میں زمانہ ہے

0
342
تمہیں یہ فخر تو حاصل ہے تمہیں چاہا گیا
ہمارے پاس یہ احساس بھی ادھورا ہے

0
74
کبھی جو دل تُو دھڑکا دے تو جا کے دل دھڑکتا ہے
کبھی مدھم کبھی ساکت کبھی درہم کبھی برہم
ترے ہی اسم سے جاناں مہکتی صبح ہے میری
کبھی روشن کبھی جھلمل کبھی چپ چپ کبھی پرنم

0
50
تیرے ہونٹوں پہ مسکان سجا دوں
تو ہنسے تو میں غم اپنا بھلا دوں
کوئی پوچھے مری جان ہے کس میں
مسکرا کے اسے نام بتا دوں

0
74
عشق ویرانے کی وہ راہ گزر ہے جس پر
دِل ٹھہر جاتا ہے اور عمر گزر جاتی ہے

0
104
ھم تیرے لگتے تو کچھ بھی نہیں مگر ہے یہ
نہ جانے بن ترے کیوں ہم اداس رہتے ہیں

0
65
یہ تھا ہی نہیں کہانی کا انجام اصل مِیں
کیا کیجئے کہ بِیچ مِیں کردار بِک گئے
یہ لازم ہے رکھیے اپنی نظر آستین پر
یہ سننے مِیں آ رہا ہے نمک خوار بِک گئے

0
94
میری کتابِ زیست تم اک بار تو پڑھو
گر چاہے پھینک دو کسی اخبار کی طرح
ـ

0
50
سارے غموں کی وفات ہو جاتی ہے
جب میری تم سے بات ہو جاتی ہے،

0
96
عادتیں ڈال کر اپنی توجہ کی
ایک دم جو بدلتے ہیں ستم کرتے

0
81
ہم بھی شوقین پینے کے ہیں
جب ہیں پیتے تو چائے پیتے

0
44
رشتہ رکھنا ہو تو اچھائی بیاں کرتے رہو
ختم کرنا ہو تو سچائی بیاں ہی کر دو

0
55
ساتھ اپنوں کا نبھانا تو کوئی بات نہیں
غیر کا بن کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
عمر کر دینا محبت میں عجب کیا صاحب
تم مجھے مر کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
تم جو کرتے ہو محبت پسِ دیوارِ انا
تم یہ دیوار گِراؤ ہی تو کوئی بات بنے

0
58
ہم جیت بھی سکتے تھے اس عشق کی بازی کو
وہ جیت کے خوش ہوگا یہ سوچ کے ہم ہارے

0
68
دل کی دھڑکن ہوا کرے کوئی
میرے دل میں بسا کرے کوئی
آتشِ عشق میں فنا ہو کر
رقص بسمل کیا کرے کوئی
ٹوٹ کر چاہے میرا ہو کے رہے
زندگی بھر وفا کرے کوئی

0
98
لاکھ بولا نہ قتلِ عام کرو
باز آئی نہ تم سنورنے سے

0
39
وہ پڑھ رہا ہے ان دنوں اوروں کی شاعری
میں اس کے انتخاب میں شامل نہیں رہی

0
65
کبھی تو ان کی بھی قدر کر کے ہی دیکھیں
جو آپ سے بنا مطلب کے پیار کرتے ہیں

0
42
تجھ کو پا کر بھی کچھ نہیں پایا
تیرے ہو کر بھی بے سہارے ہیں

0
58
روز کی طرح ہی آج بھی درد کو
ہم چھپانے لگے تھے مگر رو پڑے

0
71
پھر سے تیری کمی محسوس ہوئی شدت سے
آج پھر دل کو منانے میں بہت دیر لگی

0
121
اکھیاں وچ تو وس دا ایں
میں صدقے جاواں اکھیاں دے

0
166
تیرے لفظوں میں وہ تفصیل کہاں
اپنی آنکھوں سے کہو، بات کرے

0
67
تو جو بھی بول مگر ہمکلام رہ مُجھ سے
تُو جانتا ہے مجھے چپ سُنائی دیتی ہے

0
116
پیار کرنا دغا نہیں کرنا
دل کو دل سے جدا نہیں کرنا
غیرتِ ضبط کا تقاضا ہے
درد سہنا، گلِہ نہیں کرنا
لڑکیاں زود رنج ہوتی ہیں
کبھی ان کو خفا نہیں کرنا

0
59
وہ مری شامیں سہانی اور چُپ
ہائے اُس کی بدگمانی اور چُپ
طاقچوں میں رات کے رکھی رہیں
دو جلی شمعیں پرانی اور چُپ
اپنے اپنے ذائقے میں زہر ہیں
آنکھ کا یہ کھارا پانی اور چُپ

0
45
میں نے الفت کے فسانوں میں پڑھا ہے تمہیں
تم وہی ہو جو کہ دھڑکن کو بڑھا دیتے ہو

0
88
آخری دیپ ہے بھروسے کا
سرد لہجے بجھا نہ دیں اس کو

0
85
سلجھا کے اپنی زُلف کو وہ مطمئن ہیں یوں
جیسے کوئی جہاں میں پریشاں نا رہا

0
88
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا

0
167
جسم سے روح نکلنے کا سماں ہو جیسے۔۔!
جان لیوا ھے ترا مجھ سے گریزاں ہونا۔!!

0
51
بہت ہے بھی سکوں گہرا بہت اجلی ہے خاموشی
بہت آباد لہجے میں، بہت سنسان ہے کوئی!!!!!!!

0
80
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
39
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
54
کوئی بانٹے مرے ساتھ مری تنہائی
ڈھونڈ کے لا دو مجھے زیست سے ہارا کوئی

0
50
کس قدر کارِ اذیت ہے ذرا سوچو تو
جس نے ملنا ہی نہیں اس کی تمنا کرنا

0
126
تو نے چپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی زمانے سے ہوئی

0
76
تیرا وجود روجوں کے اعتکاف پر
میرا وجود تیرے ہی عین شین قاف

0
65
چاندنی رات کے خاموش ستاروں کی قسم
دل میں اب تیرے سوا کوئی بھی آباد نہیں

0
100
تیری صورت ہی مری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

0
61
ہم کو مارا گیا ہے نفرت سے
ہم پہ الزام تھا محبت کا

0
60
نہیں فرصت یقیں جانو ہمیں کچھ اور کرنے کی
تری باتیں تری یادیں بہت مصروف رکھتیں ہے

0
99
تم اگر چاہو تو تجدید محبت کے لیے
ایک ہلکا سے تبسم کی اک انگڑائی بہت

0
64
طبیب تھک چکا مگر یہ گھاؤ بھر نہیں رہا
شفا کی آس مر چکی مریض مر نہیں رہا

0
582
اشعار کے پردے میں جذبات بیاں کرنا
کیا خوب سلیقہ ہی ھے لفظوں کو زباں کرنا

0
67
ہاتھ ہاتھوں میں لے لیا اُس نے
جتنے گھاؤ تھے بھر گئے دل کے

0
102
پھر سے اک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے

0
255
بہت سا عرصہ ہوا نا آیا خبر بھی لینے
بڑا تھا آیا یہ زندگی بھر کا ساتھ دینے

0
60
کوئی امید ملاقات کی ہی دلا دو بس
پھر انتظار تو ہم ساری عمر کر لینگے

0
46
دل ہے یوستہ کسی شخص کے دل سے میرا
ہاتھ میں ہاتھ نہیں ہے کہ چھڑاتل جاؤ

0
44
عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا

0
55
چُھٹی کوئی مرے ساتھ مَنا گاؤں میں
کوئی خُوش بَخت سا اتوارمُکمل کر دے

0
53
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کیسی عزیز سے کوئی کب تک خفا رہے

0
35
ہر ایک بات پہ اسکا جواب ہے لیکن
تمام بحث کا لب و لباب ہے لیکن
ہمارے پاس نہیں خواب کی حقیقت دوست
ہمارے پاس حقیقت کا خواب ہے لیکن
کوئی خلا ہے جو بھرتا نہیں کسی صورت
ہر ایک چیز ہمیں دستیاب ہے لیکن

0
44
جا چکے اب تو مری فکر کمانے والے
دن وہ بچپن کے نہیں لوٹ کے آنے والے
اب نہ وہ رنگ نہ خوشبو کے وہ میلے ٹھیلے
لے گئے ساتھ مرا وقت سجانے والے
لے گئے چاند بھی تارے بھی مری شامیں بھی
جو تھے جگنو مری راہوں میں بچھانے والے

0
56
میں ترے لب پہ ہوں دیرینہ شکایت کی طرح
یاد رکھنا ہے مجھے تو نے عداوت کی طرح
چاند نکلے تو مرا جسم مہک اُٹھتا ہے
رُوح میں اُٹھتی ہوئی تازہ محبت کی طرح
تیری خاطر تو کوئی جان بھی لے سکتا ہوں
میں نے چاہا ہے تجھے گاؤں کی عزت کی طرح

0
224
اب حالِ دل نہ پوچھ، کہ تابِ بیاں نہیں
اب مہرباں نہ ہو کہ ضرورت نہیں رہی

0
464
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوۓ
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

0
71
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی صرف محبّت نہ ملی

0
95
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے بڑے ہی خوبصورت ہیں

0
218
بس اتنے ہی سے الفاظ کہنے ہیں تم سے
خیال رکھا کرو اپنا اچھے لگتے ہو

0
77
تو دل میں آئی تو ہر شے نکل گئی دل سے
تری طلب نے زمانے سے بے طلب رکھا

0
64
کوئی کردار تو تم لائو ہمارے جیسا
ہم اسی روز کہانی سے نکل جائیں گے

0
101
خاک میں گزرا ہوا کل نہیں ڈھونڈا کرتے
وہ جو پلکوں سے گرا پل، نہیں ڈھونڈا کرتے
پہلے کچھ رنگ لبوں کو بھی دیئے جاتے ہیں
یونہی آنکھوں میں تو کاجل نہیں ڈھونڈا کرتے
بیخودی چال میں شامل بھی تو کر لو پہلے
یوں تھکے پیروں میں پائل نہیں ڈھونڈا کرتے

0
70
تم کو ترسنے کا مطلبِ سمجھ میں آ جائے
ہمارے سامنے کچھ دیر بیٹھ کر دیکھو

0
40
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

0
59
‏بھیجی تم نے ڈاک میں کتنی اداسیاں
چہرہ اُتر گیا مرا مرجھا گئے ہیں پھول

0
50
کہانی کار نے سب کو بتا دیئے کِردار
مجھے بس اتنا کہا ہے کہ تم نے مرنا ہے

0
83
ہٹا کر کفن مجھے بار بار تو دیکھیں گے
انھیں میرے مرنے کا اعتبار بھی نا ہو گا

0
51
صرف دھوکہ ہی دے سکا وہ
اُس کی اوقاتِ اتنی ہی تھی

0
40
جاگی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں
کچھ تعلق عذاب ہوتے ہیں
ٹوٹنے تک یہ کچھ نہیں ہوتے
ٹوٹ جائیں تو خواب ہوتے ہیں
کچھ مسائل کا مسئلہ یہ ہے
حل کرو تو خراب ہوتے ہیں

0
165
خزاں میں ہی شاخ سے گرتے پتوں نے اُداس
‏مجھے یہ درس دیا ہے زوال سب کو ہے

0
60
کچھ ہی قدموں کی دوری پر تھی
منزل کے بہت قریب تر تھی

0
58
کہاں رہی وہ محبت ہے آج کل
بہت سے لوگ ہوس کا شکار ہے

0
41
میرا گلا کرنا بنتا بھی نہیں ہے
کیونکہ وہ تو پہلے ہی بے وفا تھا

0
43
کسر کسی نے ہی نہیں چھوڑی مجھے مٹانے کی
خدا محافظ رہا میرا ہر زمانے میں ندیم

0
74
اپنی ہر بوند تری یاد کی لذت لیکر
بارشیں آگ لگانے کا ہنر لائی ہیں

0
49
ہم نکالیں گے اے سُن موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

0
64
ایک احساس ہی دل میں جگانے کے لیے
بات کرتے ھوئے مر جائیں تو کیسا ھوگا

0
96
ہر چیز ہی کہ مل جاتی ہے کہ ہی دعا سے
اک بار تمہیں مانگ کردیکھیں گے خداسے

0
53
شاعری شوق نہیں اور نہ ہی کار وبار
درد برداشت نہیں ہوتا تو لکھ دیتا ہوں

57
اب کسی کو کسی سے ڈر ہی نہیں
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

0
49
یہ خالی جیبیں فقیر حلیہ اداس آنکھیں
ہمیں کوئی جو گلے لگائے تو کیوں لگائے

0
93
دونوں ہی مرحلوں میں ہوں میں ہجر اور وصل
بیٹھا ہے میرے پاس وہ جانے کے بعد بھی

0
101
کیوں نا اے شخص تجھ کو دیکھوں لگا کے ہاتھ
تُو میرے وھم سے بڑھ کر بھی تو ھو سکتا ہے

0
56
نشانِ سجدہ سجا کر بہت غرور نہ کر
وہ نیتوں سے نتیجے نکال لیتا ہے

0
149
تم کو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تم پے کئی بار مر گئے

0
578
جس کے لیے لِکھا اُس نے ہی نا پڑھا
پھر عالمِ کُل بھی پڑھ لے تو مُجھے کیا

0
41
گر زندگی میں ہوتی اک قتل کی اجازت
میں خود کو ہی بہت بے رحمی سے مار دیتا

0
42
مٹ جانے کا ارادہ تمہارے لئے تھا
تم خود ہی مٹا دو گے یہ سوچا ہی نا تھا

0
37
عشق کو بھی عشق ہو تو پھر میں دیکھو عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روۓ عشق اپنے عشق میں

0
79
یہی بُہت ہے کہ دِل اُس کو ڈھونڈ لایا ہے
کِسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آیا ہے!

0
149
وہ آئیں گے ہی جِس بھی روز مِلنے
یقیناً فروری کی " تیس " ہوگی!

0
60
اور پھر چھوڑ گئے وہ جو کہا کرتے تھے
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے

0
111
قسم خدا کی کہ سب کُچھ مُجھے مُیسر ہے
بُہت ستاتی ہے لیکن تری کمی مُجھ کو!

0
79
خبر تھی کیا ہو جائے گی ہی محبّت تم سے
مجھے تو بس تیرا مسکرانا اچھا لگا تھا۔

0
66
ہم نے کب تم سے ملاقات کا وعدہ چاہا
دور رہ کر بھی تمہیں تم سے زیادہ چاہا"!

0
103
وہ رُوٹھا رہے مُجھ سے يہ منظُور ہے ليکن۔!
يارو اُسے سمجھاؤ ميرا شہر نہ چھوڑے

0
63
مجھے مطالب نہیں کوئی کس کے ساتھ کیسا
جو میرے ساتھ اچھا ہے وہ میرے لیے اچھا ہے

0
46
اور ہنستے ہوئے چہرے نے بھر رکھا ہمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ہے ہم

0
177
میں نے حلفاً اُسے بتانا ہی تھا
تُم میرے جسم و جاں میں بستے ہو

0
56
یہ تلخیوں سے بھرے ہوئے لوگ،
طنزیہ بھی نا کہے تو مر جائیں!

0
76
میں تیرا ذِکر کروں اپنے شعر میں یعنی
فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے

0
75
ناراض ہمیشہ خوشیاں ہوتی ہیں
اتنے نخرے غم کے ہوتے ہی نہیں

0
63
اک بہانہ ہے مرے پاس ابھی جینے کا
ایک تصویر پڑی ہے تری میرے دل میں

0
68
دلیل تھی نا کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے ہی ہے

0
79
حقیقتِ سے پردہ اک دن اٹھ ہی جائےِ
سچِِ کو سامنے تو اب ہی رکھا جائےِ

0
55
یقیں گم ہو چکا ہم سے گماں محفوظ رکھا ہے
خیال و خواب سا رنگیں جہاں محفوظ رکھا ہے
ہوا مسمار سب لیکن جہاں تم گھر بناتے تھے
وہ دل کا ایک ٹکڑا جان جاں محفوظ رکھا ہے
شکستہ ہو چکے جل بجھ چکے تاریخ شاہد ہے
فضاؤں میں مگر اب تک دھواں محفوظ رکھا ہے

0
75
تلخی و حیات پی بھی لینے تو دیجئے
میسر ہو نا ہو پھر یہ شب پینے دیجئے
مےچل رہی تھی بادہ کش دست ساقی سے
پروانے کو  گلا ہے کیا پینے دیجئے
آئے یہاں سے اب خالی ہاتھ تو نا جائیں
تھوڑی سی میکدے ہمکو پینے دیجئے

2
96
تلخی و حیات پی بھی لینے تو دیجئے
میسر ہو نا ہو پھر یہ شب پینے دیجئے

49
اسے خوش کا   کوئی  بہانہ ڈھونڈتے  ہیں
مل  جائے  کوئی  ایسا  افسانہ  ڈھونڈتے ہیں

0
54
غم  نا   کر غم  بندے کو  جلا   دیتا  ہے
کون  ہے   جو  مجھکو   ہر  روز  پلا   دیتا  ہے
بھولنے کی  کوشش  میں رہتا  ہوں میں  ہر  لمحہ
کوئی ہے جو زخموں  پے نمک  ہی  لگا  دیتا  ہے
غم کے بادل  ہے سر پے اک سائے کی طرح
کوئی ہے جو بجھی  آگ  کو پھر سے  ہوا  دیتا  ہے

0
74
پہلے ملنے سے وہ بچھڑ گیا
وعدہ کرکے آیا تھا ملنے کا

0
57
آتی کہاں تھی شاعری سیکھا دی اس نے
عادت تھی کہاں عادت ہی بنا دی اس نے
پیار محبت کرنا بھی سیکھا دی اس نے
بھیجے شعلوں کو پھر سے ہوا دی اس نے
بھٹکا ہوا تو تھا میں پہلے  ہی  راہ  سے
دیکھتے دل کی بستی ہی جلا دی اس نے

0
83
آتی کہاں تھی شاعری سیکھا دی اس نے
عادت ہی کہاں تھی عادت بنا دی اس نے
پیار محبت کرنا بھی سیکھا دی اس نے
بھیجے شعلوں کو پھر سے ہوا دی اس نے
بھٹکا ہوا تو تھا پہلے ہی راہ سے میں
دیکھتے دل کی بستی ہی جلا دی اس نے

0
70
گر قلم کار کے کہنے میں نہیں آئے گا
تیرا کردار کہانی سے نکل جائے گا
یہ تماشا ہے ، تماشے میں یہی ہوتا ہے
تجھ سے بہتر جو نبھائے گا، جگہ پائے گا

0
258
جس سے کر لیتے ہیں دل کی بات
اور ہم پھر نہیں چھوڑتے

0
116
بات وہ بھی نہیں مانتا
اور ضد ہم نہیں چھوڑتے

0
62
تھے اور بھی چاہنے والے زمانے میں
مگر ہم نے تو دل تم سے لگایا تھا

0
45
اور نہیں کچھ بس اتنا ہی کافی ہیں
اس کی آنکھ کا نظارہ ہی کافی ہے
بات نا بھی ہو اس سے
ہو جائے دیدار اتنا ہی کافی ہے
دل تو کہتا ہے تیرا ساتھ عمر بھر کا
ہو اک پل کی ملاقات اتنا ہی کافی ہے

0
96
جی بر کے دیکھن سے جی بر گیا ہے میرا
کچھ وہ محبت میں ایسا دغا کر گیا ہے
جی تو چاہتا اس کا نام تلک نا لو
نام بھی لینا مجبوری اک بن گیا ہے
دکھ ہوتا ہے جب کوئی راہ میں چھوڑ کے جائے
پاس ہو کر منزل کے وہ راہ بدل جائے

0
72
اچھے کی امید مجھ سے نا کیجئے
برا ہوں میں برا ہی رہنے دیجئے

0
78
تیرے شہر میں ہم بھی آئے تھے بے وفا
ہر کسی سے وفا ملی بس اک تیرے سوا

0
118
کیا غضب کی کشش تھی تیری آنکھوں میں
اور چہرے کو زلفوں میں چھپا ہوں تھا

0
70
میرا غم تم نہیں سمجھو گے
آنکھوں نم تم نہیں سمجھو گے

0
48