Circle Image

محمد ندیم

@Nadeemgujjar

اردو شاعری

یہ فیض آج بھی جاری ہے اس سخن ور کا،
زباں پہ نام ہے ہر ایک کے علامہ کا۔
وہ فکر جس نے جگایا تھا خواب غفلت سے،
اسی سے تابندہ ہے اب بھی چراغ صحرا کا۔
نہیں ہے اس کے تخیل کی کوئی حد باقی،
کہ جس نے کھول دیا رازِ حق و دنیا کا۔

0
1
دل وہ افسردہ چراغِ سرِ منزل ہی رہا
شہر میں درد کا عالم یونہی بس چلتا رہا
فکرِ ہستی میں کوئی عقدہ نہ وا ہم سے ہوا
ہم تو سمجھے تھے کہ جینے کا قرینہ ہی رہا
عشق کی زد پہ رہے، عقل سے شکوہ نہ گلہ
یہ جنوں، حد سے سوا، چلتا رہا چلتا رہا

0
3
نہ کوئی خواب ہے اب اور نہ کوئی تقدیر باقی،
فقط اک دل ہے سینے میں، وہی تصویر باقی
ہزاروں آرزوئیں دل میں پنہاں ہو کر رہیں اب،
مگر اک حسرتِ دیدار ہے، تدبیر باقی
عجب سودا ہے الفت کا، عجب دیوانگی ہے،
کہ ہر شے لٹ گئی، پر لذتِ زنجیر باقی

0
2
کبھی تو آؤ کہ دل کا قرار ہو جائے
تمہاری دید ہی بس اختیار ہو جائے
یہ دل ہے یا کوئی ویران سی حویلی ہے
جہاں پہ آ کے ہر اک غم سوار ہو جائے
خرد کو چھوڑ کے دیوانگی میں جینا سیکھ
یہی وہ راہ ہے جس سے کہ پار ہو جائے

0
2
نہ دل میں تابِ سخن ہے، نہ جاں میں تاب نہیں
عجب فریبِ محبت، یہ خواب ہے کہ نہیں؟
وفا کی رسم چلی ہے نہ دہر میں شاید
کوئی بھی عہد کا پابند اب جناب نہیں
ازل سے پیاس ہماری بجھی نہیں ساقی
یہ زندگی تو فقط ایک سراب ہے کہ نہیں؟

0
2
کوئی بھی خواب کا اب دل میں گھر نہیں ہوتا
کسی بھی درد کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا
عجب یہ گردشِ دوراں ہے، کیا کہیں اس کو
کوئی بھی حال یہاں معتبر نہیں ہوتا
خزاں نصیب ہوئے گل، چمن اجڑ بھی گئے
مگر بہار کا اب کچھ سفر نہیں ہوتا

0
2
کوئی پیام صبا سے ہمیں نہیں آتا
دلِ حزیں کو سکوں اب کہیں نہیں آتا
ترا خیال بھی جب دل میں آ کے بیٹھتا ہے
تو ایک لمحہ بھی ہم کو یقیں نہیں آتا
وفا کا نام نہ لے، اے محبتوں کے خدا
یہاں تو درد کا درماں کہیں نہیں آتا

0
1
کبھی جو یاد میں آیا وہ چاند سا لگتا
مگر وصال کا قصّہ فسانہ سا لگتا
خزاں کی دھوپ میں بیٹھا تھا میں خیالوں میں
وہ آ کے بولا کہ موسم بہانہ سا لگتا
کسی کے ہجر میں دن بھی سیاہ ہوتے ہیں
کسی کے ساتھ تو ہر غم خزانہ سا لگتا

0
4
مقامِ آگہی پر آ، نہیں یہ مرثیہ تجھ سے
کہیں گے لوگ دنیا میں، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ہنر اپنا جگا دل میں، نہ مانگ بھیک منزل کی
سفر ہے تیری منزل کا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
خودی کو کر بلند اتنا، کہ تیری ذات ظاہر ہو
جہانِ نو کا خالق ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

0
4
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
یہ دل اگر اسیرِ وفا ہے تو اے صنم
ہر قید، ہر اسیر کا سودا بھی چھوڑ دے
گر تجھ کو اپنا آپ ہی پیارا نہیں رہا
جینے کی آرزو، یہ تقاضا بھی چھوڑ دے

0
3
کرم کی نظر، اک ذرا چاہتا ہوں
بہانہ کوئی، باخدا چاہتا ہوں
نہیں دل میں وسعت ترے غم کے آگے
وہی آرزو، اِک خلا چاہتا ہوں
مجھے دے نہ تسکینِ ہجراں کا مرہم
میں زخموں سے اب آشنا چاہتا ہوں

0
4
دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکرِ حبیبِ پاک بھلایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سنایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے، جتایا نہ جائے گا
جنت بھی ہو نصیب مگر اس کے بغیر
کوثر کا جام یوں ہی اٹھایا نہ جائے گا

0
2
نہ اب جفا ہو کسی سے، نہ اب وفا ہوگی
یہ زندگی تو بس اک رائیگاں سزا ہوگی
جو آج ہنس رہے ہیں میری بے بسی پہ یہاں
یہی ہجوم کل میرا نوحہ خواں ہوگی
فلک سے ٹوٹ کے گرتے ستاروں کی صورت
ہمارے دل کی کہانی بھی جاوداں ہوگی

0
6
یہ دل اپنا جلا بیٹھا، تری محفل میں آ کر اب،
کوئی پروا نہیں مجھ کو، کہ دنیا ہے کدھر اب۔
وہی دیوانگی اپنی، وہی وحشت، وہی عالم،
وہی دل اب ہے ناداں، سو در پہ جا کے بیٹھا ہے
تری آنکھوں کا جادو ہے، ترا اندازِ داغؔ اب ہے،
اسی میں فیضؔ کا جلوہ، اسی میں ہے ہنر اب۔

0
6
جنوں کی حکایت عجب داستاں ہے،
نہ دل کو سکوں اب، نہ کوئی اماں ہے۔
وہی چشمِ نم، دل وہی بے قرار اب،
محبت کی صورت وہی درمیاں ہے۔
تری چشمِ مستی، ترا ناز داغؔ سا،
مگر اس میں اقبالؔ کا بھی نشاں ہے۔

0
3
ازل سے رشتۂ جاں ہے، کسی کا دلربا ہونا،
یہی تو حاصلِ غم ہے، یہی درد آشنا ہونا۔
نہ پوچھو وسعتِ دل کی، کہ یہ صحرا سے بھی بڑھ کر،
عجب اک بیدلی ہے اب، عجب خود سے جدا ہونا۔
وہ آنکھوں کی شرارت، وہ نگاہوں کا بدل جانا،
کوئی سیکھے تو اس سے اب، ہنر عشوہ نما ہونا۔

0
3
عشق میں تیری ندیمؔ اب، یہ دل اپنا گنوا بیٹھا،
نہ کوئی ہوش ہے باقی، نہ کوئی آسرا بیٹھا۔
تیرے کوچے میں جو آیا، تو یہ دنیا بھلا ڈالی،
تیرے قدموں میں ہی آ کر، دلِ مضطر سجا بیٹھا۔
نہ مِلی چین کی صورت، نہ کوئی خوابِ راحت اب،
تری الفت کا یہ سودا، مرے دل کو دبا بیٹھا۔

0
3
یہ دل اپنا جلا بیٹھے، کسی ظالم کے دھوکے میں،
بڑی حسرت سے ہم آئے، اسی دنیا کے میلے میں۔
نہ پوچھو حال اے ہمدم، کہ بس جینے کی حسرت ہے،
جنازہ دل کا نکلا ہے، تری زلفوں کے سائے میں۔
عجب آشوب برپا ہے، تری الفت کے ماروں میں،
نہ کوئی چین پہلو میں، نہ کوئی دل ٹھکانے میں۔

0
4
الٰہی مرے دل میں کیسی طلب ہے،
نہاں اس میں کیا کوئی رازِ عجب ہے؟
یہی طرزِ غالبؔ، یہی شانِ میرؔ ہے،
یہی عشق والوں کا روز و شب ہے۔
تری شوخیٔ چشم و اندازِ داغؔ ہے،
مری شاعری کا یہی اب سبب ہے۔

0
3
یہ دل ہے مبتلائے غم، ازل سے اس خرابے میں،
کہ جیسے کوئی شمعِ جاں، سلگتی ہو سرابے میں۔
ہر اک مشکل ہوئی آساں، تری الفت کے پردے میں،
کوئی سمجھے تو یہ نکتہ، چھپا ہے اس حجابے میں۔
وہ آنکھوں کا اشارہ، وہ تبسم، وہ ادا کیسی،
کہ جیسے بجلیاں کوندیں، کسی کے چشم و خوابے میں۔

0
3
سفر میں منزلیں، کارواں اور بھی ہیں
مقام اور بھی ہیں، آشیاں اور بھی ہیں
یہیں پہ ختم نہیں جستجو کی راہِ حیات
فضا میں وسعتیں، آسماں اور بھی ہیں
نہ ہار ہمت و جاں، اے اسیرِ دامِ یقیں
کہ بے خودی کے نئے امتحاں اور بھی ہیں

0
3
ازل سے رشتۂ دل ہے اُسی جانِ جہاں کے ساتھ
کہ ہم نے عہدِ وفا باندھا ہے نام و نشاں کے ساتھ
جنوں میں ہوش کا عالم، خرد میں بے خودی چھائی
عجب کیفیت طاری ہوئی ہے امتحاں کے ساتھ
ترے بغیر بہاریں بھی بے رنگ و بے کیف ہیں
خزاں کا راج ہے اب دل کے اس گلستاں کے ساتھ

0
3
کیا خبر تھی کہ یہ دن رات بھی آ جائیں گے
دل میں الفت کے جذبات بھی آ جائیں گے
دل یہ کہتا ہے ملاقات رہے گی قائم
پر یہ ڈر ہے کہ لمحات بھی آ جائیں گے
ہم نے سوچا تھا فقط آپ ہی ہوں گے دل میں
کیا خبر تھی کہ خیالات بھی آ جائیں گے

0
4
کیا کہوں حالِ دلِ زار، ستم گر تجھ سے
ہو گئی زندگی بیزار، ستم گر تجھ سے
تیرے کوچے میں جو گزرا، سو گزرا، لیکن
اب بھی دل ہے گرفتار، ستم گر تجھ سے
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، یہ ستم ہے کیسا
ہم تو بیٹھے تھے پر امید، ستم گر تجھ سے

0
3
زمانہ چھین نہ پائے جو دل کا سودا ہے
یہی جنوں ہے ہمارا، یہی ارادہ ہے
بہت قریب سے دیکھا ہے گردشِ ہستی
یہ چار دن کا تماشا، یہ سب کشادہ ہے
تری گلی سے گزرتے ہوئے خیال آیا
کہ آج بھی کوئی عاشق یہاں زیادہ ہے

0
2
قَلْبِي يَبْكِي دَمَاً لِفِرَاقِكَ يَا نَدِيمِي۔
(میرا دل تمہاری جدائی میں خون روتا ہے، اے میرے ندیم۔)
أَيْنَ الْحَبِيبُ الَّذِي كَانَ يُؤْنِسُنِي؟
(کہاں ہے وہ محبوب جو میرا دل بہلاتا تھا؟)
النُّجُومُ فِي السَّمَاءِ تَشْهَدُ عَلَى عِشْقِي۔
(آسمان کے تارے میرے عشق کی گواہی دیتے ہیں۔)

0
4
کوئی پیام نہ آیا، یہ کیا گلہ ہے ہمیں
کہ دل کا حال بتانا بھی اب سزا ہے ہمیں
نہ کوئی رنگ رہا اب، نہ کوئی بو باقی
فقط جنوں ہے میسر، یہی دوا ہے ہمیں
جو دل پہ نقش ہوئے زخم، وہ مٹیں تو کیسے
یہی ستم ہے کہ یہ داغ بھی بھلا ہے ہمیں

0
4
بہار آمد و دل را بہار دیگر کو؟
کہ در فراقِ تو صبر و قرار دیگر کو؟
غمِ تو کشت مرا، لیک حسرتم این است
بہ غیر یار، ہمیں غمگسار دیگر کو؟
ز دستِ رفتہ جوانی، چہ سود ایں دنیا
چو رفت عمرِ عزیز، اعتبار دیگر کو؟

0
3
یہی جنوں ہے کہ دل پھر شکار میں آیا
نظر جھکی سی رہی اور وہ کنار میں آیا
بہار آئی چمن میں، مگر وہ رنگ نہیں
کہ جیسے ذکرِ صبا اب غبار میں آیا
وہی وفا کی تمنا، وہی ہے طرزِ جنوں
کہ دل کا حال وہی کاروبار میں آیا

0
4
بیا کہ دردِ دلم را دوا نخواہد بود
بہ غیر وصلِ تو ما را شفا نخواہد بود
مرا ز کوی تو رفتن بہ غیرِ مرگ نباشد
کہ دل جدا ز رخِ تو، جدا نخواہد بود
اگر بہ بزمِ وفا، نامِ ما رقم نشود
شرابِ بادۂ ما را بہا نخواہد بود

0
3
عجب ہے گردشِ تقدیر، اب ٹھکانہ کوئی
نہ آشنا کوئی اپنا، نہ ہم نوا کوئی
یہ دل وہ گھر ہے کہ جس میں کبھی سکوں نہ ملا
مگر رہے گا یہاں عمر بھر دوانہ کوئی
جو دل پہ نقش ہوئے زخم، یار کے تھے ندیمؔ
لگا سکے نہ محبت کا اب فسانہ کوئی

0
4
جو دل پہ نقش ہوئے، وہ مٹیں تو کیسے مٹیں
یہ داغ آج بھی شامل مرے نگار میں ہے
عجیب رنگ ہے محفل کا، سب خموش مگر
ہر ایک بات جو پنہاں ہے، آشکار میں ہے
کبھی تو عکس پڑے گا تری نظر کا ادھر
یہ انتظار ازل سے اسی بہار میں ہے

0
3
ہزار حیلہ کیا، پر وہ بے وفا نہ ہُوا
کہ دل کو اپنے کسی غم سے آشنا نہ ہُوا
بہت سے داغ تھے پہلو میں، دل جلا نہ سکا
یہ عشق بھی مرے حق میں کوئی دوا نہ ہُوا
جو بات لب پہ نہ آئی، وہ دل میں رہ گئی آج
کچھ ایسا ضبط کہ محفل میں غلغلا نہ ہُوا

0
3
جو درد دل میں بسا ہے، کسی دوا سے نہ جائے
یہ غم تو اب مری جاں سے بھی آشنا نہ رہے
جو زخم یار نے بخشے، وہ دل سے کیسے مٹیں
بہار آئے چمن میں، مگر ہوا نہ رہے
عجیب عالمِ الفت ہے، دل یہ کہتا ہے
وفا کا ذکر رہے، پر کوئی وفا نہ رہے

0
3
ہزار شکوہِ ستم، نازِ بے مثال سہی
مگر یہ دل تو ترا آج بھی بحال سہی
عجب جنوں ہے کہ پہروں رہے خموش مگر
تری گلی سے گزرنا بھی اک وبال سہی
یہاں کہاں وہ رعایت کہ بات دل کی کہوں
جو حال دل کا ہے اپنا وہی احوال سہی

0
3
جس جا ترا نقشِ پا نظر آئے، بَھلا لگے
سجدہ کریں گے ہم تو، ہمیں کعبہ سا لگے
یوں دل نے اپنے غم کو سنبھالا ہے اب کے بار
جیسے کوئی مریض کہ عادت دوا لگے
اُس چشمِ فتنہ گر کی مجھے کیا خبر بھلا
جب دیکھتا ہوں اُس کو، نیا آشنا لگے

0
3
پھر وہی دل، وہی تمنّا ہے
کیا خبر کتنی عمر گنوانا ہے
یارِ دیریں کی بزم ہے سونی
جس جگہ آج ایک افسانہ ہے
لے گئے چھین کر وہ ہوش و حواس
اب فقط دل میں ایک ویرانہ ہے

0
3
کعبے سے کچھ غرض ہے نہ بُت خانے سے کام
ہم تو بیٹھے ہیں لگائے درِ جاناں پہ شام
رندِ مشرب ہوں، نہیں شیخ کا قائل ہرگز
ساقیا! گردش میں لا اب تُو وہ بادہ، وہ جام
دل بھی اب وہ نہیں، وہ درد و الم بھی نہ رہا
کیا کریں ذکرِ فغاں، کیا لیں اب اس کا نام

0
7
کبھی یوں بھی تو ہو، وہ روبرو آئے
زباں خاموش ہو اور گفتگو آئے
ہزاروں خواہشیں دل میں مچلتی ہیں
کوئی ان کو سنے اور آرزو آئے
عجب یہ گردشِ دوراں ہے ساقی
نہ منزل کا پتا ہو، نہ جستجو آئے

0
3
جو دل میں مرے گھر بنا کر گیا ہے
وہ جاتے ہوئے دل جلا کر گیا ہے
کبھی خواب میں اس کو دیکھا نہیں تھا
مگر نیند کو کیوں اڑا کر گیا ہے؟
کوئی بھی نہیں اس جہاں میں ہمارا
یہ احساس دل میں جگا کر گیا ہے

0
3
عجب ہی بات ہے، کیا دل لگی سی چل رہی ہے
کہ ہر محفل میں جیسے اک کمی سی چل رہی ہے
کبھی وہ چاند تھا، میری نگاہوں کا ستارہ
مگر اب آسماں پر تیرگی سی چل رہی ہے
کوئی دیکھے تو دل کے زخم ہیں تازہ ابھی تک
حیاتِ درد کی یوں زندگی سی چل رہی ہے

0
2
کوئی ایسا بھی رستہ ہو جو میری سمت جاتا ہو
کوئی تو ہاتھ ہو جو ہاتھ میرا تھام پاتا ہو
متاعِ دل لٹا کر بھی نہ حاصل ہو سکا کچھ بھی
عجب سودا ہے یہ جس میں کوئی اپنا گنواتا ہو
یہی دنیا ہے، اس میں ہر قدم پر امتحاں ہوں گے
وہی جیتا ہے جو ہر گام پر خود کو آزماتا ہو

0
3
یہی ہے زندگی اپنی، یہی ہے دل فگار اپنا
نہ جانے کب تلک ہوگا یہ رونا زار زار اپنا
یہی ہے رنج و غم کا گھر، یہی ہے خار زار اپنا
کہاں ہے فصلِ گل اب کے، کہاں ہے اب بہار اپنا
اِدھر اُدھر بھٹکتے ہیں، نہیں کوئی دیار اپنا
فضا میں اڑ رہا کب سے، فقط اپنا غبار اپنا

0
5
محبت میں جنوں ہو گا، یہیں دل کو سکوں ہو گا
میں جب تک ساتھ چلوں گا، محبت کا فزوں ہو گا
یہ دنیا ایک دھوکا ہے، نہ اس پے اعتبار آئے
جو حالِ دل سنائے گا، اسی کو درد دوں گا
یہاں ہر ایک مضطر ہے، ہر اک آنکھ آج پر نم ہے
جو سمجھے اس حقیقت کو، وہی دلدار ہو گا

0
3
عجب سی زندگی اپنی، عجب یہ ماجرا دیکھا
نہ دل کو چین مل پایا، نہ کوئی آشنا دیکھا
مقامِ منزلیں کب ہیں، سفر ہے زندگی اپنی
کوئی ٹھہرا نہیں اب تک، نہ کوئی انتہا دیکھا
خزاں چھائی گلستاں پر، نہ کوئی پھول کھل پایا
جوانی کا سماں گزرا، نہ رنگِ دل کشا دیکھا

0
3
یہ دل بے چین ہے شاید محبت ہو گئی اس کو
یہ کس کا نام لیتا ہے اکیلا ہی ندیم اب تو
بڑی مشکل میں ہے جانِ حزیں اب کیا کیا جائے
کوئی صورت نہیں ہے دردِ دل کی اب ندیم اب تو
یہاں پر کون سنتا ہے فغاں اور آہیں اور گریہ
کسے دکھ درد سنائیں ہم، کسے ڈھونڈیں ندیم اب تو

0
4
نہ دل اپنا رہا اپنا، نہ اب اپنی جوانی ہے
فقط تنہائی کا عالم، فقط دل کی کہانی ہے
عجب ہے گردشِ دوراں، عجب یہ زندگانی ہے
کہاں وہ یار کی صحبت، کہاں یہ بے نشانی ہے
متاعِ دل لٹا بیٹھے، مگر اس کو خبر کب ہے
مری آنکھوں میں جو چھلکا، وہی اشکِ روانی ہے

0
4
غمِ حیات کو دل سے نکال کر دیکھو
غمِ فراق میں اپنا کمال کر دیکھو
وہ اک نظر میں اگر دل کو بے قرار کرے
تو اس کے عشق میں اپنا یہ حال کر دیکھو
یہی سکون ہے اور دل کی آرزو بھی یہی
کسی کے ہجر کو اپنا وصال کر دیکھو

0
2
درود اُن پر کہ جن کی ذات یکتا،
خدا کا نور جن کے لب پہ آیا،
کرم اُن کا رہا ہر دم نمایاں،
گدا کو جن نے رتبہ شہ کا بخشا
یقیں کامل کی منزل، بس وہی ہیں،
ہدایت کا سہارا، بس وہی ہیں،

0
3
جہل کی تاریکیوں میں روشنی ہے علم کی
زندگی کی ہر کڑی میں آگہی ہے علم کی
یہ وہ دولت ہے جو ہر دم بڑھتی جائے بانٹنے سے
کیسے ممکن ہے کمی ہو، بے کمی ہے علم کی
دیکھ لو تاریخ کو، اس نے یہی ثابت کیا
قوم کی عظمت، ترقی اور سمی ہے علم کی

0
5
جو ملی ہے زندگی اس کا صلہ پایا گیا
دیکھ کر رنگِ جہاں لطف و مزہ پایا گیا
آج دل شاداں ہوا، روح بھی مسرور ہے
جیسے گم گشتہ کوئی اپنا پتا پایا گیا
ہر طرف پھیلی کرن، روشنی ہی روشنی
غم کے بادل چھٹ گئے، عزمِ بقا پایا گیا

0
4
غلطی سے بھی کوئی فیصلہ بجا نہ ہوا
یہی تو دکھ ہے کہ اپنا کوئی گلہ نہ ہوا
عجیب بھول تھی، خود کو سمجھ لیا سب کچھ
مگر حیات کا ہم سے حق ادا نہ ہوا
ہم اس فریب میں جی اٹھے کہ منزل قریب
کھلا یہ تب کہ جب کوئی نقشِ پا نہ ہوا

0
3
عجب خوش فہمی میں ہم جی رہے ہیں
ستم کو لطفِ کرم جی رہے ہیں
نہیں خبر کہ یہ دنیا ہے ایک دھوکا
فریبِ خواب میں ہر دم بہ دم جی رہے ہیں
سمجھ لیا ہے جسے یار اپنا ہم نے
وہ دشمنی میں بہت محترم جی رہے ہیں

0
3
ہوائے نفس میں کیسی عجب نادانی ہے
کہیں فریب، کہیں خواب کی کہانی ہے
یہ دل لگی نہیں آسان، اے مری جاں، سن
یہ عشق آگ کا دریا ہے، اور پانی ہے
میں ڈھونڈتا ہوں جنہیں، وہ مری خبر نہ لیں
یہ میری چاہ، مری جستجو، پرانی ہے

0
3
سکونِ دل ملا ہے جب سے یار آیا
چمن میں جیسے پھر سے نو بہار آیا
نہ کوئی غم رہا ہے اب نہ کوئی رنج
ہر اک پہلو میں ہی اب تو قرار آیا
بڑی مشکل سے پایا ہے یہ وقتِ خاص
ہزاروں جستجو کے بعد یہ بار آیا

0
2
فقط دل کی لگی کا تھا سہارا میرے دلبر سے
مگر اب زندگی ہے آشکارا میرے دلبر سے
مجھے ہر پل یہ ڈر رہتا، کہیں کوئی نہ سن لے بات
چھپا رکھا ہے میں نے سب اشارا میرے دلبر سے
یہی کافی نہیں ہے کیا کہ وہ میرے ہوئے آخر
یہی کافی نہیں ہے کیا نظارا میرے دلبر سے

0
3
درود ان پر جو ہر دم جگمگائے
خدا کا نور جن کے لب پہ آئے
کرم ان کا ہمیشہ عام دیکھا
گدا کو بھی کیا جن نے شہنشاہ
یقیں کامل کی منزل بس وہی ہے
ہدایت کا سہارا بس وہی ہے

0
3
کوئی بھی دل دُکھائے گر کسی کا
یہی سمجھو کہ وہ پتھر دِلی ہے
مروت جس کے دل میں پیدا ہو جائے
وہی انسان اچھا آدمی ہے
نہ چھوڑو ساتھ نیکی کا کبھی تم
یہی تو زندگی کی روشنی ہے

0
3
کبھی تنہائیوں میں آ کے ملنا اچھا لگتا ہے
وفا کا ذکر کرنا اور سننا اچھا لگتا ہے
ہزاروں غم سہی، پر دل کو پھر بھی اے ساقی
لبوں پہ نام تیرا گنگنانا اچھا لگتا ہے
یہ دنیا رسم و راہِ بے وفائی کی ہے لیکن
کسی کا منتظر رہنا، بلانا اچھا لگتا ہے

0
3
نہ کوئی آس باقی ہے نہ اب کوئی سہارا ہے
فقط اس دل میں تیرا نام ہی پیارے ہمارا ہے
عجب ہے حال اپنا بھی ترے کوچے میں دیوانو
کہ جیسے موج کو ساحل کا بس اک اِک اشارا ہے
چلے جب سے وہ محفل سے ہوئی ویران ہر شے ہے
فضا بھی سوگ میں ڈوبی، فلک بھی اک نظارا ہے

0
3
نئی تعمیر کرنا چاہتا ہوں
یہ دنیا ہیر کرنا چاہتا ہوں
وہی تسخیر کرنا چاہتا ہوں
وہی تنویر کرنا چاہتا ہوں
مرے دل کا وہی سب راز سُن لو
وہ سب تقریر کرنا چاہتا ہوں

0
3
کسی کی یاد جو میری پُکار سے باہر
وُہی اک سایہ جو اپنے حصار سے باہر
اُسی کے نام پہ جینے کی کَون سی ضد ہے
جو میری دسترس، اور اِختیار سے باہر
میں اُس کی دُھن میں کسی اور سمت چل دی تھی
وہ اپنے گھر کے کسی شہریار سے باہر

0
3
یہ کس رستے پہ چلتا جا رہا ہوں!
نہ منزل ہے، نہ گھر کا جانتا ہوں!
کوئی آہٹ نہیں ہے اب یہاں پر!
کہاں اپنے، کہاں پر میں کھڑا ہوں!
میرے دل کا سکوں برباد کیوں ہے!
یہ کس دنیا کے ہنگامے میں پڑا ہوں!

0
4
کیا وہ وعدہ تھا جسے آج نبھانا ہے ہمیں!
تیری یادوں میں ہی اب اور نہ بہکنا ہے ہمیں!
شہرِ دل میں تو فقط اک تیری یادوں کی گلی!
اب تو ہر گام پہ ٹھوکر ہی کو کھانا ہے ہمیں!
یاد اس کی بھی تو آتی ہے، مگر ہنستے ہوئے!
ایک یہی دکھ ہے جسے ہنس کے نگلنا ہے ہمیں!

0
4
مرے دل کو جو غم ہے، وہ نیا نہیں ہے
کہ یہ تو آپ کے جیسا نہیں ہے
وہ جس کو دیکھنے کو آنکھ ترسی
پرندہ شاخ پر بیٹھا نہیں ہے
جو تم کو آج کل اچھا لگا ہے
مرے خوابوں میں تو ایسا نہیں ہے

0
4
اپنی قسمت پہ بےجا گلہ مت کرو
حسرتوں کو کبھی بد دعا مت کرو
روشنی کے دیوں کو بجھا مت کرو
غم کا جلتا ہوا سلسلہ مت کرو
دل کے زخمی پرندوں کو پرواز دو
ان کے پر کاٹ کر پھر جفا مت کرو

0
5
ہجومِ شہر سے اک دشت سا بنا ہوا ہے
یہ ہر شخص یہاں جیسے تنہا سا کھڑا ہوا ہے
کھویا ہوا سا ہے وہ، اپنی جستجو میں شاید
جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے پڑا ہوا ہے
ہر ہاتھ میں ہے ایک بے جان سی مشین، مگر
سب کے دلوں میں سنسان سا اک خلا ہوا ہے

0
4
کیا خوب منظروں میں، کیا بستیوں میں دیکھا
ہر سانس کے تعلق کو، ان بندشوں میں دیکھا
تجھ کو کہاں تلاشیں، کس کو پکار بیٹھیں
تجھے تو ہر لمحہ، ہر اِن قدموں میں دیکھا
ظاہر تو وہ نہیں ہے، مخفی بھی تو نہیں ہے
جب آنکھ بند کی، تو ان خوابوں میں دیکھا

0
3
اِک نظر ہم کو اِشارے سے بَلا لوگے یہ آج
ہوگا کیا، دل کو ہمارے، جو دکھا دوگے یہ آج
تم نے مانی ہے نہ مانے گی کبھی کوئی بات
اپنی اِس شان سے اب، ہم کو رُلا دوگے یہ آج
چشمِ پُر ناز سے کچھ اور ہی مطلب نکلے
اور ہر اک بات میں، اک اور اَدا ہو گی یہ آج

0
4
نہ سکوں ہے دلِ ویراں کو اب، نہ قرار ہے
ہے مری روح کا ہر ذرہ فقط ایک غبار ہے
کچھ بھی ہوتا نہیں دراصل مرے پاس نیا
وہی تنہائی، وہی رنج، وہی فصلِ بہار ہے
ایک دیوار ہے حائل مری خواہش اور مجھ میں
اور اک فاصلہ ہے جو نہیں ہوتا کبھی پار ہے

0
4
اب جس کو جو کہنا ہے، وہ کہہ کر ہی رہے گا
جب شہر میں سچ کا کوئی پردہ ہی نہ ملے
یہ اہلِ وفا سب ہیں، مگر ایک حقیقت
اُن اہلِ محبت کی طرف دیکھنا ہی نہ ملے
ہم نے تو بہت سوچ سمجھ کر کہا لیکن
اب ہم سے کوئی پوچھنے والا ہی نہ ملے

0
6
وہی ہے دل جو مگر اب ٹھہرتا نہیں ہے
عجیب رستہ ہے کوئی گزرتا نہیں ہے
تمام عمر اسی راہ میں رہی ہے مری
جہاں پہ سایۂ دیوار ملتا نہیں ہے
جو تجھ سے بچھڑیں تو یہ بے بسی بھی دیکھیں گے
کہ کوئی دوسرا اس طور برتا نہیں ہے

0
3
کوئی بھی خواب میرے دل سے اب ملتا نہیں ہے
عجب سی خامشی ہے، کوئی کچھ کہتا نہیں ہے
اس قدر ہے فاصلہ اب میرے اور اس کے درمیان
کہ یہ احساسِ دوری اب کوئی کھلتا نہیں ہے
وہی راتیں ہیں، وہی صبح ہے، وہی دن بھی ہیں
مگر کیا کیجیے، ہر لمحہ ہی بیتتا نہیں ہے

0
3
کچھ دن سے اب لبوں پہ کوئی بات بھی نہیں
جیسے کہ خامشی ہے، مناجات بھی نہیں
جو درد ہے تو اس کی شکایت نہیں سہی
یہ غم کوئی خوشی کے لمحات بھی نہیں
کیا اعتبار زلفِ پریشاں پہ کیجیے
جب ایک آنسوؤں کی برسات بھی نہیں

0
3
کبھی فرشتہ، کبھی شیطان ہے آدمی
کیا کیا نہ اس کے اندر نہاں ہے آدمی
کرتا ہے خود ہی پیار، خود ہی ہے سراب میں
اپنے ہی جال کا وہ گمان ہے آدمی
اک بات پر وفا، تو اک بات پر جفا
کتنے بدلتا رنگِ بیاں ہے آدمی

0
3
جو خواب تھا وہ نیند میں ہی فوت ہو گیا
جو زندگی تھی وہ تری سوغات ہو گئی
اب وقت اور تم سے گِلہ کیا کریں گے ہم
بس اس لیے کہ ہم کو بھی مات ہو گئی
ہم کو پتا ہی نہ چلا اور یہ سفر تمام
اک عمر بس تمہاری حکایات ہو گئی

0
3
وہی ہے دل میں مگر جب ملاقات کیجیے
آئے نہ لب پہ کوئی بھی بات، کیا کیجیے
یہ عمر بھر کی تھکن، یہ اداسیوں کا سفر
جب ملیں سکون کی اک رات، کیا کیجیے
تمہارے شہر کے ہر در پہ جستجو کے سوا
نہ ہاتھ آئے کوئی سوغات، کیا کیجیے

0
6
ہمیں کچھ دیر تو پلکوں پہ تم ٹھہرا ہی لیتے ہو
کہ جب جانا ہے تو رو کر ہمیں رخصت ہی دیتے ہو
نہ وعدے ہیں، نہ قسمیں ہیں، نہ باقی جستجو کوئی
فقط لب پر مرے نامِ محبت ہی دیتے ہو
یہ کیسی بے رخی ہے دل میں اب تم سوچتے کیا ہو؟
مرے ہو کر بھی اب تم اجنبی صورت ہی دیتے ہو

0
7
کسی کی جستجو میں خاک ہونا چاہیے
یقیں کو راہِ منزل کا نشاں ہونا چاہیے
نہیں ہے زندگی کا مقصد فقط آسودگی
خود اپنا خوں، خود ہی رنگِ خزاں ہونا چاہیے
اسیرِ عقل و خرد کا جو قائل ہو، وہ کیا جانے
جنوں میں کوئی تو اپنا بھی جہاں ہونا چاہیے

0
5
کسی پہ دل کا بھروسا کیا کریں گے ابھی؟
جو سچے عشق کو جھوٹا کہا کریں گے ابھی؟
یہ زخمِ ہجر تو ہر دن کا ہے نیا صدمہ
یہ زندگی ہے، سو رو کر جیا کریں گے ابھی
کچھ ایسے وعدے ہیں جو اس نے کر لیے ہم سے
جو بھول جانے میں بھی یاد آ کریں گے ابھی

0
5
ستم کی یہ بھی حد ہے، چھوڑا آشیانہ، ہائے دل
کچھ نہ سمجھا تیرے فریبِ زمانہ، ہائے دل
یہ خودی کی بے بسی، یہ بے وفائی کا زوال
تیری فرقت میں ہے یوں نالہ و بہانہ، ہائے دل
جس کو سمجھا تھا ہم نے اپنے زخموں کا مسیحا
اُسی کا وار ہے سب سے غائبانہ، ہائے دل

0
6
مجھ پہ ہر شے کی ہے ویرانی کا غم، ہائے ہے
آج کیوں دل پر تری یادوں کا ماتم، ہائے ہے
ایک تنہائی ہے اور اک بے کسی کا درد ہے
یہ تو دوزخ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم، ہائے ہے
بزمِ ہستی میں کوئی ہمدم نہیں، غم خوار نہیں
صرف اپنے آپ سے ہی اپنا باہم، ہائے ہے

0
5
وفا کے رنگ میں جل گئے ہیں دل کے چراغ ہم نے
یہی عشق کا معیار ہے، یہی راہ میں ہم نے
جفا کے بعد بھی سر نہ جھکایا کبھی ہم نے
یہی صبر کی بات ہے، یہی قدم میں ہم نے
محبت کی شمع کو جلا کے رکھا ہر دم ہم نے
یہی دل کی روشنی ہے، یہی دَم میں ہم نے

0
7
محبت ایک جذبہ ہے، عطائے کبریا ہے
یہی دل کا تقاضا، یہی دل کی ادا ہے
وفا کے بام پر جلتی رہِ الفت کی شمع
یہی خوابِ ازل ہے، یہی خوابِ بقا ہے
جفا کے بعد بھی ہم نے دُعا ہی کی ہمیشہ
یہی رنگِ محبت، یہی لطفِ وفا ہے

0
7
زندگی اک سفر ہے، راہوں کی روشنی سے بنا
ہر خوشی ہے چھوٹی، ہر غم بھی سبق سے بنا
وقت کی روانی میں، ہر لمحہ صبر سے گزارا
خوابوں کی روشنی ہے، امید کے سہارا سے بنا
دوستی کا ہاتھ تھام، غم کو بانٹ لے دل میں
محبت کی خوشبو ہے، دل کی رونق سے بنا

0
9
44
تیرا سایہ چھوڑ گیا، خالی کمرہ ہے دل میں
ہر یاد کا عکس باقی، اور فسانہ ہمارا ہے دل میں
رات کی تنہائیاں سنبھالی، دل کی تنہائی میں
آنسو بھی چھپ چھپ کے بہے، اور صبر کا سہارا ہے دل میں
ہر قدم پر یادیں ہیں، ہر لمحہ تیرا پیغام
یادوں کی خوشبو بسی، اور سکون ہمارا ہے دل میں

0
1
10
زندگی کی راہوں میں مشکلات کا سفر
ہر خوشی چھوٹی لگے مگر سبق کا سفر
وقت کے پانی میں بہنا ہے دل کا سفر
خوابوں کی روشنی ہے امید کا سفر
دوستی کا ہاتھ پکڑ، بانٹ غم کا سفر
محبت کی مٹھاس ہے دل کا سفر

0
5
چراغِ دل ہے مدینے کی ایک جھلک سے بنا
یہ نور بخشا گیا، عشق کی لپک سے بنا
یہ کیسی خوشبو چلی، سب فضا معطر ہے
یہ دل تو روضے کی مٹی کی اک کِھلک سے بنا
نظر میں آ گئے جب، روضۂ رسولِ امین ﷺ
تو دل بھی کہنے لگا، یہ مرے طبق سے بنا

0
8
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت،
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں۔
چاند تاروں سے بھی روشن ہے تری یادوں کا جمال،
ہم تو شب بھر تری تعبیر لیے پھرتے ہیں۔
دل کی دھڑکن بھی تری آہٹ پہ ٹھہر جاتی ہے،
تیری سانسوں کی وہ تاثیر لیے پھرتے ہیں۔

0
8
تمہاری یاد کا ہر لمحہ دل میں بس گیا،
وقت کے ہاتھ بھی اب تم پہ کس گیا۔
خواب جو آنکھوں میں تھے، وہ ادھورے رہ گئے،
دل کی راہوں میں کبھی تم سے فس گیا۔
پھولوں کی خوشبو میں تمہاری مہک ملی،
پر خزاں کی ہوا نے سب کچھ چھس گیا۔

0
8
تمہارے بعد عجب دل پہ وقت آیا ہے،
نہ ہنسی سچی لگی، نہ غم سمایا ہے۔
کسی کے بعد بھی جینے کا فن تو سیکھ لیا،
مگر یہ دل تو وہیں رک کے رہ گیا ہے۔
کبھی خیال میں آؤ تو دل دھڑک اُٹھتا،
یہ پیار اب بھی بہت معصوم سا لگا ہے۔

0
7
وہ جو شخص خواب تھا، خواب ہی رہا، نہ ملا، نہ بھول سکا کبھی
میں تو ہنس کے جی بھی لیا مگر، وہ غمِ وصال رہا، کبھی
مرے دل میں چاند سا عکس تھا، وہی عکس ٹوٹ کے رہ گیا
میں جو لمس چاہ کے کھو گیا، وہی لمس ہاتھ لگا، کبھی
کسی شام اس کی جدائی نے، مری آنکھ بھیگ سی دی تھی
پھر وہی نمی مری روح میں، کسی رات گونج گئی، کبھی

0
6
خوابوں کا جال نہیں بنتا ہوں میں
کچھ حقیقت شناس ہو گیا ہوں میں
پہلے لہجوں پہ بھروسہ تھا بہت
اب تو چہروں سے واقف ہو گیا ہوں میں
جو کہا دل نے، زمانے نے نہ مانا کبھی
اب زمانے سے خاموش ہو گیا ہوں میں

0
11
چاندنی رات میں تُو یاد بہت آتا ہے
خواب ہر رات مجھے رُلا جاتا ہے
تُو جو بچھڑا تو ہوا بھی نہ لگی مجھ کو
تیرا لہجہ ابھی تک دل سنبھال جاتا ہے
بے سبب آنکھ میں رہتی ہے تری تصویر
جیسے خوابوں میں کوئی راستہ آ جاتا ہے

0
4
چن ورگا مکھ تِیرا، دل تے راج کرے،
ویکھ کے ہسّی تیری، جان ساج کرے۔
ہوا جدو چلّے، خوشبو بن کے توں آوے،
کلیاں دے وچ رہ کے، بات آج کرے۔
اک واری آکھ دے، کہ مینوں چاہندا ایں،
اے دل تاں تیرے نال، ربّ دا راج کرے۔

0
6
دل کے چراغ بجھے نہیں، ہوا بدل گئی مگر
اک روشنی سی رہ گئی، جو جاں سے جل گئی مگر
دنیا نے روک لی نظر، میں نے بھی سر جھکا لیا
دل نے کہا کہ چل اُدھر، جہاں وہ چل گئی مگر
اشکوں سے میں نے دھو دیا، چہرہ غبارِ غم کا تھا
تصویر وہی دل میں ہے، جو رنگ کھل گئی مگر

0
9
یہ دل ابھی سفر میں ہے، ٹھکانا نہیں ملا
خودی کو جان لیا، مگر زمانا نہیں ملا
نظر میں آگ ہے، مگر بصیرت نہیں جلی
کہ نورِ عشق کا وہ بہانہ نہیں ملا
جہاں کی رونقوں میں گم رہا میں عمر بھر
مگر وہ دردِ دل کا خزانہ نہیں ملا

0
7
تجھ سے بچھڑ کے خود کو سنوارا نہیں کبھی
دل نے کسی کو بھی پکارا نہیں کبھی
میں نے ہر ایک زخم کو چُھو کر ہنسا دیا
اپنے غموں کو میں نے سنوارا نہیں کبھی
تیری جدائی عمر کی صورت بنی رہی
دن بھی سکون کا گزارا نہیں کبھی

0
6
خود سے ملنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوتا
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے پاس نہیں ہوتا
٭
ہر تعلق میں کوئی دکھ چھپا رہ جاتا ہے
دل تو جلتا ہے مگر خاص نہیں ہوتا
٭

0
7
میں اپنے ہونے کی تلاش میں نکل آیا،
یہ کون بول اٹھا — "یہ تُو نہیں، میں ہوں!"
ہر اک قدم پہ سفر خود بدل گیا،
کہ منزلوں میں بھی رستہ، کہیں میں ہوں۔
جو خواب آنکھ میں دیکھا تھا چپکے سے،
وہ ٹوٹنے پہ بھی زندہ، وہیں میں ہوں۔

0
8
چپ چاپ تری گلی سے گزرتا ہوں میں،
یادوں کے دَر میں خود کو بکھرتا ہوں میں۔
بارش کے قطروں میں تیری خوشبو بسی،
ہر بوند سے تجھ کو ہی سنتا ہوں میں۔
تُو دور ہوا، تو شہر بھی اجڑ گیا،
تنہائی کے صحرا میں جلتا ہوں میں۔

0
10
وہ خواب جو آنکھوں میں بسا بیٹھا ہوں میں
کیا کہوں کس حال میں جا بیٹھا ہوں میں
بارشیں رُکتی نہیں دل کے نگر میں آج تک
جانے کیوں اک اشک سا بہا بیٹھا ہوں میں
چاندنی میں اُس کی یادوں کا سفر باقی رہا
راہ میں کِتنے دیے جلا بیٹھا ہوں میں

0
6
کسی نے سمجھا ہمیں مول لے لیں گے،
مگر ہم ضمیر کے پکے ہیں، بکتے نہیں۔
جو خواب ہمیں رات نے سونپے خدا کی قسم،
وہ دنیا کے سکّوں پہ رکھ کے بکتے نہیں۔
یہ حرفِ صداقت ہے، سودا نہیں کوئی،
ہم اپنی انا بیچ کے جھک کے بکتے نہیں۔

0
6
دل کو پھر سے کسی وعدے نے بہلایا ہے،
ورنہ کب زخمِ محبت نے سنبھلایا ہے۔
چاندنی رات میں تنہا وہ گلی یاد آئی،
جہاں آنکھوں نے ترا چہرہ جلایا ہے۔
کس نے پوچھا کبھی، کیسا ہے یہ دل بے کل؟
ہم نے ہر درد کو ہنستے ہوئے پایا ہے۔

0
6
دل نے چاہا کہ تری یاد بھلا دی جائے،
پر یہ چاہت بھی تری یاد دلا دی جائے۔
اک نظر تو نے جو ڈالی تھی، اثر ایسا ہوا،
ہم نے دنیا کو بھی اک خواب بنا دی جائے۔
حسن تیرا بھی فریبِ نظر کی صورت ہے،
دیکھنے والے کو بس آگ لگا دی جائے۔

0
5
اُٹھ، خودی کو کر بلند، اپنی حقیقت کو پہچان
کہ تجھ میں چھپی ہے وہ چنگاری، جو کر دے جہاں کو حیران
یہ مٹی، یہ آسمان، تیرے وجود کے نقش ہیں
نہ خود کو بھول، نہ خوابوں کے راز کو نادان
زمانہ تیرے ارادوں کا آئینہ ہے اے بشر
جو تُو بدل دے نگاہ، بدل جائے ہر جہان

0
6
نظر نے خواب دیکھے بے حساب راتوں میں
محبتیں بھی ہوئیں بے نصیب، ندیمؔ
ہزار زخم بھی کھائے، مگر قدم نہ رکے
رہا وفا پہ دل بے رقیب، ندیمؔ
کبھی سکون ملا، پھر وہی خلش دل کی
یہ زندگی کا ہے عجب نصیب، ندیمؔ

0
9
پھر سے اِک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے
جا کے دیکھا جہاں جہاں تجھ بن
ہر جگہ انتظار باقی ہے
تُو گیا، دل مگر نہیں مانا
اب بھی تیرا خمار باقی ہے

0
4
عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا
چل پڑے ہم راہوں میں خاموش
ہر قدم میں چھپ گیا عالم اپنا
دیکھا جو چہرہ اُس نے کبھی
دل میں اتر گیا سلام اپنا

0
7
تیرا چہرہ جب نظر آیا، دل کو سکوں ملا
تیری باتوں میں جو چھپا، راز نیا ملا
خوابوں کی وادیوں میں ہم نے پا کے تو دیکھا
محبت کا وہ رنگ، جو دل کو چھو گیا ملا
رات کی تنہائیاں بھی تیرے نام سے روشن ہوئیں
ہر ایک یاد میں، تیری خوشبو کا جلوہ ملا

0
7
دل کے آئینے پہ جب احساس کی کرنیں پڑیں،
خواب زندہ ہو گئے، جو مٹ چکے تھے دھُند میں۔
سوچ کی وادی میں جب تنہائی بولی حرفِ نو،
آسماں جھکنے لگا، سر ہو گیا سجود میں۔
خود کو پہچان اے مسافر! راہ تجھ میں خود نهفت،
جس کو ڈھونڈا آسمانوں میں، وہ ہے تیری جست میں۔

0
9
ہر ایک دل میں چھپی ہے کوئی صدا گہری،
وہی شعور ہے، جس سے ہوا فضا گہری۔
نظر کو دے جو بصیرت، وہی ہے نورِ حیات،
بنے تو دل کی یہ دنیا، سراپا راہِ طری۔
خود اپنے باطنِ گمگشتہ کو جو پہچانے،
تو جان لے کہ یہ ہستی نہیں فنا گہری۔

0
5
سفر ہے عشق کا، منزل نظر نہیں آتی،
یہی تو شانِ طلب ہے، خبر نہیں آتی۔
چراغ دل کا جلا، پھر ہوا کا طوفان آیا،
مگر یہ آگ بجھے، اثر نہیں آتی۔
جہاں میں شور ہے دولت، مقام و شہرت کا،
مگر سکونِ دل ادھر نہیں آتی۔

0
4
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
اندھیروں سے ڈر کر نہ چھپ بیٹھیں وقت کے رخسار سے
چراغِ دل جلا، روشنی دے، یہ شب سراپا کیا ہے
قومیں جو سوئی ہیں، ان کو جگا دو فکری طوفان سے
عزم و ہمت کا جوش بڑھا، آگے بڑھ، یہ دنیا کیا ہے

0
7
اکھیاں وچ تو وس دا ایں
میں صدقے جاواں اکھیاں دے
دل دیاں گلاں تیرے نال جڑ گئیاں
رنگ ساگر دے وچ ڈوبیاں اکھیاں دے
چننی راتاں وچ تیری یاد آوے
نینداں چُرا لے گئی اکھیاں دے

0
8
جہاں میں روشنی تیری ادا سے پھوٹی ہے،
یہ دل کی دھڑکنیں تیری صدا سے جُوٹی ہیں۔
خودی نے سیکھا جِلا تیرا نام لے لے کر،
یہی تو روح کی دولت، یہی ہیروٹی ہیں۔
محمدؐا! تری نسبت ہی عزّتِ بشر ہے،
تری غلامی میں سلطنتیں چھوٹی ہیں۔

0
6
‎کہتا ہے دلِ مومن، تقدیر وہی لکھتا ہے
‎جس نے فلک و زمیں کو، اک حکم سے برپا کیا
‎وہ ہے چراغِ ہستی، وہی نورِ ذاتِ ازل
‎وَاللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، یہی نعرہ صدا کیا

0
5
دل میں جو روشنی ہو، وہی ایمان کی عطا ہے
غم میں جو مسکراہٹ ہو، وہی رب کی رضا ہے
وہی سنبھالتا ہے دل، جب ٹوٹنے لگے امید
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا — یہی خوش خبریِ خدا ہے
اندھیروں میں جو چراغ جلائے، وہی مؤمن ہے
جو رات میں بھی مطمئن رہے، وہی اہلِ دعا ہے

0
5
‎کہاں گئی وہ جستجو، وہ شوقِ معرفت کہاں؟
‎خودی کی راہ چھوٹ گئی، یہ بندگی کہاں؟
‎جو اپنی ذات میں ڈھلے، وہی خدا کے پاس ہے،
‎یہ راز کم سمجھ سکے، وہ عقل کی زباں کہاں؟

0
8
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف

0
23
305
کہتا ہے ہر دل کی تقدیر، وہی جو کرے فیصلہ
وَاللّٰهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، سب پر ہے نگہبان خدا
صبر کرو، تنہائی میں بھی، گناہ سے دور رہو
إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ، ہر حال میں ہے وہ مدد گار خدا
ہر نفس چکھے گی موت کا ذائقہ، یہ ہے دنیا کا اصول
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ، نصیب میں ہے یہ پیغام خدا

12
تلخی و حیات بھی پی لینے تو دیجئے،
میسر ہو یا نہ ہو، یہ شب پینے دیجئے۔

0
4
تلخی و حیات بھی پی لینے تو دیجئے،
میسر ہو یا نہ ہو، یہ شب پینے دیجئے۔
مے چل رہی تھی بادہ کش دستِ ساقی سے،
پروانے کو گلا ہے، کیا پینے دیجئے۔
آئے یہاں سے اب خالی ہاتھ تو نا جائیں،
تھوڑی سی میکدے ہمکو پینے دیجئے۔

0
5
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رکھتی ہے،
مَیں گزَارُوں یا نہ گزَارُوں، یہ گزَر جائے گی۔
وقت کی روانی میں سب کچھ بدل جاتا ہے،
غم و خوشی، درد و سکون، سب رَل جائے گی۔
ہر لمحہ ایک سوال، ہر پل ایک امتحان،
چاہے ہم جیتیں یا ہاریں، یہ گزَر جائے گی۔

0
4
جب لفظ کاغذ پر اترتے ہیں،
تو وہ پہلے برہنہ ہوتے ہیں —
نہ کوئی رنگ، نہ آہنگ، نہ رعنائی،
صرف خالی کاغذ کی سادگی، اور خاموشی۔
پھر احساس آتا ہے…
اور ایک ایک حرف کو

0
4
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی،
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف۔
دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں خواب،
جو بکھرتے ہیں دنیا میں سب روشن حروف۔
ہر سوچ میں چھپی ہوتی ہے روشنی،
ہر لمحہ چھپتا نہیں یہ نایاب حروف۔

0
7
ہجر کے دنوں میں دل بے چین رہتا ہے
ہر لمحہ تیری یاد میں غم چھین رہتا ہے
چاندنی رات میں تیری تصویر سامنے
آنکھوں کے آگے ہر خواب جیو رہتا ہے
پھولوں کی خوشبو بھی لگتی اجنبی
تیرا لمس دل کے قریب کہیں رہتا ہے

0
3
اے نبی رحمت، تو جہاں کی روشنی ہے
تیری باتوں میں دلوں کی تسکین بسی ہے
تاجدارِ کائنات، تو ہے سب سے عالی
تیری محبت میں ہے دل کی ہر خوشی چھپی
تیری سیرت سے روشن ہے ہر دل و نظر
تیرے نقشِ قدم پر چلنا ہے نصیبِ بشر

7
تنہا رات میں تیری یادیں ستاتی ہیں
دل کی گلیوں میں تیری خوشبو رہ جاتی ہے
چاندنی بھی اب سنسان سی لگتی ہے
تیری باتوں کی لوری دل کو بہلاتی ہے
وقت کے ہر لمحے نے ہمیں جدا کر دیا
پر دل کی کتاب میں تیری ہی صدا رہ جاتی ہے

0
4
دل کے گوشے میں خاموشی چھا گئی،
تیری یادوں کی خوشبو دل میں جا گئی۔
ہر راہ میں بس تیرا سایہ دکھتا ہے،
ہر لمحہ تیرے بغیر ادھورا لگتا ہے۔
رات کے سناٹے میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں،
خوابوں کی محفلیں بھی خالی رہ جاتی ہیں۔

0
6
دل کی دھڑکن میں چھپی ہے ایک صدا
خاموشی بھی کبھی کبھی کہتی ہے وفا
آنکھوں کے کنارے پہ بچھتے ہیں خواب
ہر مسکراہٹ میں چھپی ہے کبھی خوشی، کبھی غم کا باب
محبت کے لمحے روشنی کے ٹکڑے ہیں
یادیں سایہ بن کر دل کے درختوں پر جھولتے ہیں

0
3
اے نبی ﷺ تیرا نور ہے عالم میں چھایا
تیری محبت کا ہر دل میں ہے راج آیا
تیری شان میں کائنات سب کچھ فدا کرے
تیرے نام کی خوشبو ہر گوشہ میں صدا کرے
چاند بھی تیری صورت سے ہے شرماتا
ستارے تیری روشنی سے ہیں جگمگاتا

0
5
چاندنی راتوں میں تیرا چہرہ اُبھر آتا ہے
ہوا کے ہر جھونکے میں تیری خوشبو رہتی ہے
پل جو تیرے سنگ گزرے، خواب بن جاتے ہیں
دل کے آنگن میں وہ منظر زندہ رہتی ہے
جدائی کے لمحوں میں تیری ہنسی گونجے
ہر دھڑکن میں تیری بات چھپی رہتی ہے

0
7
جب زندگی کے راستے لگیں مشکل و دشوار
ہر قدم پر ساتھ دیتی ہے صبر و حوصلہ کی امید
ہر آنکھ کے اشک میں چھپی ایک کہانی ہے
دل کے ہر زخم میں چھپی رہتی ہے شفا کی امید
اندھیری راتوں میں بھی چھائی ہے روشنی
ہر سیاہ لمحے کے بعد بھی نظر آتی ہے صبح کی امید

0
7
چاندنی راتوں میں تیری باتیں یاد آئیں
ہر ہنسی، ہر لمحہ تیرے نام کی خوشی ہے
تیرے لمس کی روشنی دل کے اندر چھائی
ہر دھڑکن میں بس تیری محبت کی خوشی ہے
خوابوں کی دنیا میں تیرا عکس نظر آیا
ہر نظر، ہر خیال تیرے رنگ کی خوشی ہے

0
6
وعدوں کے رنگ سب دھندلے ہو گئے
ساتھ کے لمحے بس خوابوں میں رہ گئے
جو باتیں کہی تھیں، سب ہوا بن گئیں
دل کے ارمان تنہا، تنہائی میں رہ گئے
تم نے چھوڑا ہاتھ میرا، بے وفا ہو گئے
پیار کے جزیرے پر صرف زخم رہ گئے

0
4
دل کے زخموں کا سہارا نہ ملا، تجھ سے
پیار کے دریا میں ہی دُور ہو گیا، تجھ سے
چاندنی راتوں میں تیری یادیں آئیں
خاموشیوں میں بھی باتیں ہو گئی تجھ سے
وفا کی راہوں میں ہمسفر کھو گئے
ہر خوشی کا لمحہ دور ہو گیا تجھ سے

0
3
دل میں بڑھتی ہوئی ویرانی کی تصویر بنا
آئنہ توڑ کے حیرانی کی تصویر بنا
میں بناتا ہوں کسی دشت میں جلتے خیمے
اور تو بہتے ہوئے پانی کی تصویر بنا
شوقِ تبدیلیِ انسان کو حیرت میں بدل
خون میں تر ہوئی پیشانی کی تصویر بنا

0
100
اب حوصلہ نہیں ہے کسی کی اڑان میں
انسان مبتلا ہے عجب امتحان میں
ٹوٹا اگر تو کچھ بھی نہ بچ پائے گا حضور
یادیں سنبھال رکھی ہیں دل کے مکان میں
لینے کی بات کیجیے وہ دور ہے کہ اب
سب کچھ ہی بک رہا ہے انا کی دکان میں

0
208
لوگ سارے کہاں مجبور ہوا کرتے ہیں
کچھ تو دانستہ کچھ اور دور ہوا کرتے ہیں
منزلِ غم پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے
بیوفائی کے بھی دستور ہوا کرتے ہیں
جن کے سینے میں محبت کی تڑپ ہوتی ہے
ان کے چہرے بڑے پرنور ہوا کرتے ہیں

0
189
کیسے بتائیں اپنوں سے کیسا صلا ملا
منزل ملی نہ ہم کو کوئی رہنما ملا
سب کچھ ہے آئینے کی طرح سامنے ترے
میں کیا بتاؤں مجھ کو زمانے سے کیا ملا
چاہت کے پھول جب سے کھلائے نصیب نے
ہر اک قدم پہ مجھ کو نیا حادثہ ملا

0
145
چاہتوں میں مت کبھی حد سے گذر کے دیکھنا
لوگ ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں پتھر دیکھنا
کتنی یادیں آئیں گی تم کو رلانے کے لئے
تم کتابوں میں کبھی اک پھول رکھ کے دیکھنا
ریت کے ساحل پہ اب تو بس یہی ہے مشغلہ
پہلے تیرا نام لکھنا پھر اسے مٹا کے دیکھنا

127
پھول بن کر میں تو ہر دل میں اتر جاؤں گا
بن کہ خوشبو میں ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
ہر نئے دن سے نیا عہد کیا جاتا ہے
روز خود سے میں یہ کہتا ہوں سدھر جاؤں گا
ہر نئے موڑ پہ پڑتا ہے غموں سے پالا
رنج و آلامِ سے بچ کر میں کدھر جاؤں گا

0
171
اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
ہم نے سوچا تھا کہ گھل مل کے زرا کم ہوگا
رنج بڑھتا گیا لوگوں سے شناسائی میں

5
313
وقت ساکن ہے سانس جاری ہے
بس ترے بعد یوں گزاری ہے
کسی آہٹ پہ چونکنا کیسا
جب ہے معلوم بے قراری ہے
رات کا روز یہ دلاسہ ہے
آج کی رات صرف بھاری ہے

530
ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک
بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے
وہ ہے خالی گھر کی صورت میں بھرا بازار ہوں
اُس کے جیسی خامُشی ہے میرے جیسا شور ہے
رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے

0
151
زخم دل کے سبھی چھپائے گئے
آنسوؤں سے دیے جلائے گئے
پوری کوشش ہمیں رلانے کی
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے
کیا بتائیں کہ کب ملی منزل
ہم تو ہر گام آزمائے گئے

134
وقت بے وقت قیامت تو نہ ڈھاؤں لوگو
درد پہلے ہی بہت ہے نہ ستاؤں لوگو
ہوش بھی عشق مرا عشق ہی مدہوشی ہے
میں تو دیوانہ ہوں تم ہوش میں آؤ لوگو
میرے سینے میں کبھی جھانک کے دیکھے کسنے
درد کے جلتے یہ ان گنت الاؤ لوگو

0
197
زندگی رہ گزر ہے گزر جائیں گے
تم بھی مر جائے گے ہم بھی مر جائیں گے
ان کا شانہ نہیں ان کا انچل نہیں
چشم تر کیا یہ موتی بکھر جائیں گے
بند ہے یہ گلی اس پہ تیرہ شبی
ہم نوا یہ بتا ہم کدھر جائیں گے

0
176
اندیشہء زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
قزاق اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ

0
290
رستے میں ہاتھ چھوڑ کے دنیا سے ڈر گیا
اک شخص میرے واسطے زندہ ہی مر گیا
جن شدتوں سے وہ مرے سر پر سوار تھا
وہ جلد باز دل سے بھی جلدی اتر گیا
مانگا تھا زندگی سے جو کچھ روز کے لیے
مرهم نما وہ شخص بھی جانے کدھر گیا

256
اُس شخص کی تعریف بھلا کیسے بیاں ہو
جس شخص کو دیکھیں تو گلابوں کا گماں ہو
میں کون سے لفظوں سے اُسے یار سراہوں
جو پاؤں سے سر تک کوئی خوشبو کا جہاں ہو
کچھ شعر مِری آنکھ پہ کھلتے ہی نہیں ہیں
آواز تو دو مِیر کے دیوان کہاں ہو

0
541
ترے انتظار کی ریت پر
کوئی لفظ میں نے لکھا نہ تھا
کوئی حرف میں نے کہا نہ تھا
کوئی خواب میں نے چُنا نہ تھا
اسی انتظار کی ریت پر
مری آرزوؤں گلاب تھے

0
238
تو قریب اتنا مجھے شام و سحر لگتا ہے
دل کی شاخوں پہ محبت کا ثمر لگتا ہے
دیکھی ان دیکھی بہاروں کا اثر لگتا ہے
اور کچھ خوشیوں کے چھن جانے کا ڈر لگتا ہے
تو ملا ہے تو کہوں کیسے ملا کچھ بھی نہیں
آتشِ عشق ہے ایسی کے بچا کچھ بھی نہیں

0
317
چلی ہوا ترے منہ سے جب انکشاف چلے
مرے بھرے ہوئے کیسٹ مرے خلاف چلے
گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت
جو دھوپ چھاؤں میں لے کر ترا لحاف چلے
اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا
چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے

0
124
پھول کدھر جائے گا ٹوٹے گا بکھر جائے گا
خوشبو بن کے تری نس نس میں اتر جائے گا

0
138
زندگی تم سے بندگی تم سے
دل کے آنگن میں چاندنی تم سے
میرے سُر میری شاعری تم سے
میرے گیتوں میں نغمگی تم سے
آنکھ میں ہے تمہارا نُور بسا
دل میں رہتی ہے روشنی تم سے

0
153
یاد ہر ایک ہمیں وہ حسیں ساعت رہ گئی
آنکھوں کے در پہ سمندر کی علامت رہ گئی
سارے الفاظ مخالف میں تمہارے تھے مگر
جب ہوئے روبرو لہجوں میں محبت رہ گئی
بے اثر دستکیں فریاد صدائیں ہیں سبھی
غیر کے کھیل میں اپنوں میں رقابت رہ گئی

0
107
خمار عشق نے آنکھوں میں وہ حروف بھرے
کتاب کوئی ہو مضمون تیرا ہی ھوتا ہے !

0
133
بڑی ہے بات جو تم مان لیتے ہو
حسن والو ہماری کیوں جاں لیتے ہو

0
136
پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے
ہمیں نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی

0
149
تری آنکھوں پہ غزل کہنا بہت مشکل ہے
تری آنکھوں پہ تو قربان جوانی ہوگی

0
135
نظر پڑی کِسی تصویر پے تو یاد آیا
بہت عزیز تھی اِک شخص کو ہنسی میری

0
122
بس ایک ہی دسـتکِ غیبی کے اِنتظار میں ہم
تمام عمر بدن سراۓ میں ٹھہرے ہیں

2
173
آج تو ایک کام کرتا جا
میرا قصہ تمام کرتا جا
زخم جتنے بھی ہیں تمہی نے دیے
مرہموں کو بھی نام کرتا جا
طنز و دشنام ہی سہی چاہے
کچھ تو ہم سے کلام کرتا جا

19
310
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رَکھتی ہَے
مَیں گزَارُوں نہ گزَارُوں یہ گزَر جائے گِی

0
935
نا تھی پرواہ اپنی ذرا بھی مجھے
کھینچ لائی تھی بچوں کی بھوک یہاں

0
106
ہاتھ چُوم نے کی جب کی اِلتجا میں نے
تو مُسکرا کر کہنے لگئے صِرف ہاتھ کیوں

0
140
جانا ہوگا مجھے اجازت دے
خودکشی راہیں دیکھتی ہوگی !
وقتِ رُخصت کفن ہٹا کے مجھے
دیکھ لینا تُمھیں خوشی ہوگی !

0
158
چلا گیا تو نہ آئے گا پھر بلانے سے
تم اس کو روک لو یارو کسی بہانے سے
یہ چارہ گر یہ مسیحا فریب دیتے ہیں
ملے گا کچھ بھی نہیں حالِ دل سنانےسے
یہ بات بات پہ سیکھا ہے جو خفا ہونا
تو مان جانا بھی سیکھو ذرا منانے سے

0
155
دل سے نکال دیجئے احساسِ آرزو
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے

0
349
ہمیں مدت لگے گی بننے میں کچھ
جو ہیں وہ تو خدا بنے ہوئے ہیں

0
104
اور کیا عہدِ وفا ہوتے ہیں
لوگ ملتے ہیں جدا ہو تے ہیں
کب بچھڑ جائیں ھم راہِ ہی تو ہے
کب بدل جائے نظر ہی تو ہے
جان و دل جس پہ فدا ہو تے ہیں
بات نکلی بھی زمانے سے تھی

0
4
400
انسان تو کتنا بھی بہادر کیوں نا ہو
لیکن یہ محبت اسے رولا دیتی ہے

0
3
252
شاعری تو میں دل بہلانے کے لئیے کرتا ہوں ورنہ
دو الفظ کاغذ پر اتارنے سے محبوب کہاں ملتے ہیں

0
2
152
ٹھوکریں مارنے لگتا ہے لہو نس نس میں
کتنا دشوار ہے، تیرا مرا یکجا ہونا

0
126
لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر
وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ
جس کے تابع ہیں جنّات و انسان
فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــانِ
ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــاء
وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء

0
442
ایک مسُلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ہے
مجھکو تیرے ساتھ اپنا کل تلاش کرنا ہے

0
140
اُس کو سُن لوں تو سبھی درد سکوں لگتے ہیں
جانے کِس دھن سے وہ لفظوں کو ادا کرتا ہے

0
485
وہ جو تقدیر میں لکھے نہیں ہوتے
ان ہی کی آرزو کو عشق کہتے ہیں

0
145
کیا کریں ایسی خوشی کو جو بھکاری کر دے
ہم کو جاناں ترے بخشے ہوۓ غم اچھے ہیں

0
92
دل کے سب زخم قرینے سے سجا رکھے ہیں
جو مگر تجھ سے ملے سب سے چھپا رکھے ہیں
جو ہمیں دیکھ کے ہنستے ہیں انہیں کیا معلوم
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
کوئی روٹھے ہوئے ساتھی کو ذرا سمجھائے
سب گلے ہم نے محبت میں بھلا رکھے ہیں

0
156
دسمبر ہوش کر پاگل یہ تجھ کو کیا ہوا آخر
بنا برسے گزر جانا تری فطرت نہ تھی پہلے

0
263
خدا کا شکر مجھے عشق ہو گیا ورنہ
میں تجھ پہ خرچ نہ ہوتا تو رائیگاں جاتا

0
189
مِیاں آہل سُخَن کی دوستی بِھی
ہُوا کرتی ہے تَقریباً مُحبّت

0
129
وہ مسکرا کے دیکھ لیں میری طرف کبھی
بس اُن کی اک نگاہ کی قیمت ہے زندگی

0
89
چل اپنے جیسے گنہگار ڈھونڈ آتے ہیں
نہیں ہیں راس ہمیں رنگ صوفیوں والے
کوئی بلائے تو خط پھاڑ دینا،مت آنا
یہاں مزاج ہیں لوگوں کے کوفیوں والے

0
1029
پوچھا محبتوں کے زمانے کدھر گئے
بولی وہ موسموں کی روانی میں گِھر گئے
پوچھا وابستگی سے تھے کچھ لوگ کیا ہوا
بولی گھٹائیں چھا گئیں سب اپنے گھر گئے
پوچھا کہ میرے بعد کوئی مجھ سا بھی ملا
بولی نہیں ملا ہمیں ہم ہر نگر گئے

0
193
تُمہاری دی ہوئی ہر چیز مُجھ کو پیاری ہے
تُمہارے ہجر میں بھی بن سنور کہ رہتی ہوں

0
85
محبت درد بکھرا سا
محبت لفظ نکھرا سا
محبت آنکھ کا پانی
محبت رات کی رانی
محبت بےتکی تہمت
محبت نور کی مورت

0
153
میرے حالات پہ مسکراہ تو صاحب
یہ دعا ہے تمہیں بھی عشق ہو جائے

0
130
وہ الم کشوں کا ملنا وہ نشاط غم کے سائے
کبھی رو پڑے کبھی زخم ندیم مسکرائے

0
474
دسمبر جا خدا حافظ بہت دکھ درد بانٹے ہیں
کوئی روٹھا کوئی بچھڑا کسی کو چھوڑ آئے ہیں

0
263
نام کو تمہارے اک ہے مقام دے رکھا
لوگ بات منوالیتے ہیں ذکر تیرا کر

0
101
ہر شام یہ کہتے ھو کہ کل شام ملیں گے
آتی نہیں وہ شام ہی جس شام ملیں گے
اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا
کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے
آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے بہانے
ڈرتے ھو ڈراتے ھو کہ الزام ملیں گے

0
1283
میری آنکھوں میں نہ ڈھونڈا کرو آنسو میرے
میں نے سینے میں چھُپا رکھا ہے ہر غم اپنا

0
187
کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہُوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بَسر کیسے ہُوئے
نینْد کب آنکھوں میں آئی کب ہَوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے ویراں نگر کیسے ہُوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کِس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرف دارِ ہوائے رہگُزر کیسے ہُوئے

0
141
بڑی ہی شدت سے آزماتے ہو صبر میرا
کبھی جو خود پے گزاری تو بکھرہ ہی جاو گے

0
142
خاموش سی آنکھوں سے جب بات ھوتی ہے
ایسے ہی محبت کی شروعات ھوتی ہے
تیرے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے رہتے
پتا نہیں کب دن کب ہی رات ھوتی ہے

0
81
کسی کو کیا بتاتی میں
کسی کو کیا سُناتی میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگین افسانہ
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے

0
162