Circle Image

محمد ندیم

@Nadeemgujjar

اردو شاعری

چن ورگا مکھ تِیرا، دل تے راج کرے،
ویکھ کے ہسّی تیری، جان ساج کرے۔
ہوا جدو چلّے، خوشبو بن کے توں آوے،
کلیاں دے وچ رہ کے، بات آج کرے۔
اک واری آکھ دے، کہ مینوں چاہندا ایں،
اے دل تاں تیرے نال، ربّ دا راج کرے۔

0
5
دل کے چراغ بجھے نہیں، ہوا بدل گئی مگر
اک روشنی سی رہ گئی، جو جاں سے جل گئی مگر
دنیا نے روک لی نظر، میں نے بھی سر جھکا لیا
دل نے کہا کہ چل اُدھر، جہاں وہ چل گئی مگر
اشکوں سے میں نے دھو دیا، چہرہ غبارِ غم کا تھا
تصویر وہی دل میں ہے، جو رنگ کھل گئی مگر

0
7
یہ دل ابھی سفر میں ہے، ٹھکانا نہیں ملا
خودی کو جان لیا، مگر زمانا نہیں ملا
نظر میں آگ ہے، مگر بصیرت نہیں جلی
کہ نورِ عشق کا وہ بہانہ نہیں ملا
جہاں کی رونقوں میں گم رہا میں عمر بھر
مگر وہ دردِ دل کا خزانہ نہیں ملا

0
4
تجھ سے بچھڑ کے خود کو سنوارا نہیں کبھی
دل نے کسی کو بھی پکارا نہیں کبھی
میں نے ہر ایک زخم کو چُھو کر ہنسا دیا
اپنے غموں کو میں نے سنوارا نہیں کبھی
تیری جدائی عمر کی صورت بنی رہی
دن بھی سکون کا گزارا نہیں کبھی

0
5
خود سے ملنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوتا
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے پاس نہیں ہوتا
٭
ہر تعلق میں کوئی دکھ چھپا رہ جاتا ہے
دل تو جلتا ہے مگر خاص نہیں ہوتا
٭

0
5
میں اپنے ہونے کی تلاش میں نکل آیا،
یہ کون بول اٹھا — "یہ تُو نہیں، میں ہوں!"
ہر اک قدم پہ سفر خود بدل گیا،
کہ منزلوں میں بھی رستہ، کہیں میں ہوں۔
جو خواب آنکھ میں دیکھا تھا چپکے سے،
وہ ٹوٹنے پہ بھی زندہ، وہیں میں ہوں۔

0
7
چپ چاپ تری گلی سے گزرتا ہوں میں،
یادوں کے دَر میں خود کو بکھرتا ہوں میں۔
بارش کے قطروں میں تیری خوشبو بسی،
ہر بوند سے تجھ کو ہی سنتا ہوں میں۔
تُو دور ہوا، تو شہر بھی اجڑ گیا،
تنہائی کے صحرا میں جلتا ہوں میں۔

0
5
وہ خواب جو آنکھوں میں بسا بیٹھا ہوں میں
کیا کہوں کس حال میں جا بیٹھا ہوں میں
بارشیں رُکتی نہیں دل کے نگر میں آج تک
جانے کیوں اک اشک سا بہا بیٹھا ہوں میں
چاندنی میں اُس کی یادوں کا سفر باقی رہا
راہ میں کِتنے دیے جلا بیٹھا ہوں میں

0
5
کسی نے سمجھا ہمیں مول لے لیں گے،
مگر ہم ضمیر کے پکے ہیں، بکتے نہیں۔
جو خواب ہمیں رات نے سونپے خدا کی قسم،
وہ دنیا کے سکّوں پہ رکھ کے بکتے نہیں۔
یہ حرفِ صداقت ہے، سودا نہیں کوئی،
ہم اپنی انا بیچ کے جھک کے بکتے نہیں۔

0
4
دل کو پھر سے کسی وعدے نے بہلایا ہے،
ورنہ کب زخمِ محبت نے سنبھلایا ہے۔
چاندنی رات میں تنہا وہ گلی یاد آئی،
جہاں آنکھوں نے ترا چہرہ جلایا ہے۔
کس نے پوچھا کبھی، کیسا ہے یہ دل بے کل؟
ہم نے ہر درد کو ہنستے ہوئے پایا ہے۔

0
5
دل نے چاہا کہ تری یاد بھلا دی جائے،
پر یہ چاہت بھی تری یاد دلا دی جائے۔
اک نظر تو نے جو ڈالی تھی، اثر ایسا ہوا،
ہم نے دنیا کو بھی اک خواب بنا دی جائے۔
حسن تیرا بھی فریبِ نظر کی صورت ہے،
دیکھنے والے کو بس آگ لگا دی جائے۔

0
4
اُٹھ، خودی کو کر بلند، اپنی حقیقت کو پہچان
کہ تجھ میں چھپی ہے وہ چنگاری، جو کر دے جہاں کو حیران
یہ مٹی، یہ آسمان، تیرے وجود کے نقش ہیں
نہ خود کو بھول، نہ خوابوں کے راز کو نادان
زمانہ تیرے ارادوں کا آئینہ ہے اے بشر
جو تُو بدل دے نگاہ، بدل جائے ہر جہان

0
5
نظر نے خواب دیکھے بے حساب راتوں میں
محبتیں بھی ہوئیں بے نصیب، ندیمؔ
ہزار زخم بھی کھائے، مگر قدم نہ رکے
رہا وفا پہ دل بے رقیب، ندیمؔ
کبھی سکون ملا، پھر وہی خلش دل کی
یہ زندگی کا ہے عجب نصیب، ندیمؔ

0
8
پھر سے اِک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے
جا کے دیکھا جہاں جہاں تجھ بن
ہر جگہ انتظار باقی ہے
تُو گیا، دل مگر نہیں مانا
اب بھی تیرا خمار باقی ہے

0
3
عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا
چل پڑے ہم راہوں میں خاموش
ہر قدم میں چھپ گیا عالم اپنا
دیکھا جو چہرہ اُس نے کبھی
دل میں اتر گیا سلام اپنا

0
6
تیرا چہرہ جب نظر آیا، دل کو سکوں ملا
تیری باتوں میں جو چھپا، راز نیا ملا
خوابوں کی وادیوں میں ہم نے پا کے تو دیکھا
محبت کا وہ رنگ، جو دل کو چھو گیا ملا
رات کی تنہائیاں بھی تیرے نام سے روشن ہوئیں
ہر ایک یاد میں، تیری خوشبو کا جلوہ ملا

0
5
دل کے آئینے پہ جب احساس کی کرنیں پڑیں،
خواب زندہ ہو گئے، جو مٹ چکے تھے دھُند میں۔
سوچ کی وادی میں جب تنہائی بولی حرفِ نو،
آسماں جھکنے لگا، سر ہو گیا سجود میں۔
خود کو پہچان اے مسافر! راہ تجھ میں خود نهفت،
جس کو ڈھونڈا آسمانوں میں، وہ ہے تیری جست میں۔

0
5
ہر ایک دل میں چھپی ہے کوئی صدا گہری،
وہی شعور ہے، جس سے ہوا فضا گہری۔
نظر کو دے جو بصیرت، وہی ہے نورِ حیات،
بنے تو دل کی یہ دنیا، سراپا راہِ طری۔
خود اپنے باطنِ گمگشتہ کو جو پہچانے،
تو جان لے کہ یہ ہستی نہیں فنا گہری۔

0
3
سفر ہے عشق کا، منزل نظر نہیں آتی،
یہی تو شانِ طلب ہے، خبر نہیں آتی۔
چراغ دل کا جلا، پھر ہوا کا طوفان آیا،
مگر یہ آگ بجھے، اثر نہیں آتی۔
جہاں میں شور ہے دولت، مقام و شہرت کا،
مگر سکونِ دل ادھر نہیں آتی۔

0
1
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
اندھیروں سے ڈر کر نہ چھپ بیٹھیں وقت کے رخسار سے
چراغِ دل جلا، روشنی دے، یہ شب سراپا کیا ہے
قومیں جو سوئی ہیں، ان کو جگا دو فکری طوفان سے
عزم و ہمت کا جوش بڑھا، آگے بڑھ، یہ دنیا کیا ہے

0
6
اکھیاں وچ تو وس دا ایں
میں صدقے جاواں اکھیاں دے
دل دیاں گلاں تیرے نال جڑ گئیاں
رنگ ساگر دے وچ ڈوبیاں اکھیاں دے
چننی راتاں وچ تیری یاد آوے
نینداں چُرا لے گئی اکھیاں دے

0
5
جہاں میں روشنی تیری ادا سے پھوٹی ہے،
یہ دل کی دھڑکنیں تیری صدا سے جُوٹی ہیں۔
خودی نے سیکھا جِلا تیرا نام لے لے کر،
یہی تو روح کی دولت، یہی ہیروٹی ہیں۔
محمدؐا! تری نسبت ہی عزّتِ بشر ہے،
تری غلامی میں سلطنتیں چھوٹی ہیں۔

0
4
‎کہتا ہے دلِ مومن، تقدیر وہی لکھتا ہے
‎جس نے فلک و زمیں کو، اک حکم سے برپا کیا
‎وہ ہے چراغِ ہستی، وہی نورِ ذاتِ ازل
‎وَاللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، یہی نعرہ صدا کیا

0
5
دل میں جو روشنی ہو، وہی ایمان کی عطا ہے
غم میں جو مسکراہٹ ہو، وہی رب کی رضا ہے
وہی سنبھالتا ہے دل، جب ٹوٹنے لگے امید
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا — یہی خوش خبریِ خدا ہے
اندھیروں میں جو چراغ جلائے، وہی مؤمن ہے
جو رات میں بھی مطمئن رہے، وہی اہلِ دعا ہے

0
4
‎کہاں گئی وہ جستجو، وہ شوقِ معرفت کہاں؟
‎خودی کی راہ چھوٹ گئی، یہ بندگی کہاں؟
‎جو اپنی ذات میں ڈھلے، وہی خدا کے پاس ہے،
‎یہ راز کم سمجھ سکے، وہ عقل کی زباں کہاں؟

0
7
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف

0
23
303
کہتا ہے ہر دل کی تقدیر، وہی جو کرے فیصلہ
وَاللّٰهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، سب پر ہے نگہبان خدا
صبر کرو، تنہائی میں بھی، گناہ سے دور رہو
إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ، ہر حال میں ہے وہ مدد گار خدا
ہر نفس چکھے گی موت کا ذائقہ، یہ ہے دنیا کا اصول
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ، نصیب میں ہے یہ پیغام خدا

12
تلخی و حیات بھی پی لینے تو دیجئے،
میسر ہو یا نہ ہو، یہ شب پینے دیجئے۔

0
3
تلخی و حیات بھی پی لینے تو دیجئے،
میسر ہو یا نہ ہو، یہ شب پینے دیجئے۔
مے چل رہی تھی بادہ کش دستِ ساقی سے،
پروانے کو گلا ہے، کیا پینے دیجئے۔
آئے یہاں سے اب خالی ہاتھ تو نا جائیں،
تھوڑی سی میکدے ہمکو پینے دیجئے۔

0
4
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رکھتی ہے،
مَیں گزَارُوں یا نہ گزَارُوں، یہ گزَر جائے گی۔
وقت کی روانی میں سب کچھ بدل جاتا ہے،
غم و خوشی، درد و سکون، سب رَل جائے گی۔
ہر لمحہ ایک سوال، ہر پل ایک امتحان،
چاہے ہم جیتیں یا ہاریں، یہ گزَر جائے گی۔

0
4
جب لفظ کاغذ پر اترتے ہیں،
تو وہ پہلے برہنہ ہوتے ہیں —
نہ کوئی رنگ، نہ آہنگ، نہ رعنائی،
صرف خالی کاغذ کی سادگی، اور خاموشی۔
پھر احساس آتا ہے…
اور ایک ایک حرف کو

0
4
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی،
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف۔
دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں خواب،
جو بکھرتے ہیں دنیا میں سب روشن حروف۔
ہر سوچ میں چھپی ہوتی ہے روشنی،
ہر لمحہ چھپتا نہیں یہ نایاب حروف۔

0
6
ہجر کے دنوں میں دل بے چین رہتا ہے
ہر لمحہ تیری یاد میں غم چھین رہتا ہے
چاندنی رات میں تیری تصویر سامنے
آنکھوں کے آگے ہر خواب جیو رہتا ہے
پھولوں کی خوشبو بھی لگتی اجنبی
تیرا لمس دل کے قریب کہیں رہتا ہے

0
3
اے نبی رحمت، تو جہاں کی روشنی ہے
تیری باتوں میں دلوں کی تسکین بسی ہے
تاجدارِ کائنات، تو ہے سب سے عالی
تیری محبت میں ہے دل کی ہر خوشی چھپی
تیری سیرت سے روشن ہے ہر دل و نظر
تیرے نقشِ قدم پر چلنا ہے نصیبِ بشر

6
تنہا رات میں تیری یادیں ستاتی ہیں
دل کی گلیوں میں تیری خوشبو رہ جاتی ہے
چاندنی بھی اب سنسان سی لگتی ہے
تیری باتوں کی لوری دل کو بہلاتی ہے
وقت کے ہر لمحے نے ہمیں جدا کر دیا
پر دل کی کتاب میں تیری ہی صدا رہ جاتی ہے

0
4
دل کے گوشے میں خاموشی چھا گئی،
تیری یادوں کی خوشبو دل میں جا گئی۔
ہر راہ میں بس تیرا سایہ دکھتا ہے،
ہر لمحہ تیرے بغیر ادھورا لگتا ہے۔
رات کے سناٹے میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں،
خوابوں کی محفلیں بھی خالی رہ جاتی ہیں۔

0
6
دل کی دھڑکن میں چھپی ہے ایک صدا
خاموشی بھی کبھی کبھی کہتی ہے وفا
آنکھوں کے کنارے پہ بچھتے ہیں خواب
ہر مسکراہٹ میں چھپی ہے کبھی خوشی، کبھی غم کا باب
محبت کے لمحے روشنی کے ٹکڑے ہیں
یادیں سایہ بن کر دل کے درختوں پر جھولتے ہیں

0
3
اے نبی ﷺ تیرا نور ہے عالم میں چھایا
تیری محبت کا ہر دل میں ہے راج آیا
تیری شان میں کائنات سب کچھ فدا کرے
تیرے نام کی خوشبو ہر گوشہ میں صدا کرے
چاند بھی تیری صورت سے ہے شرماتا
ستارے تیری روشنی سے ہیں جگمگاتا

0
5
چاندنی راتوں میں تیرا چہرہ اُبھر آتا ہے
ہوا کے ہر جھونکے میں تیری خوشبو رہتی ہے
پل جو تیرے سنگ گزرے، خواب بن جاتے ہیں
دل کے آنگن میں وہ منظر زندہ رہتی ہے
جدائی کے لمحوں میں تیری ہنسی گونجے
ہر دھڑکن میں تیری بات چھپی رہتی ہے

0
7
جب زندگی کے راستے لگیں مشکل و دشوار
ہر قدم پر ساتھ دیتی ہے صبر و حوصلہ کی امید
ہر آنکھ کے اشک میں چھپی ایک کہانی ہے
دل کے ہر زخم میں چھپی رہتی ہے شفا کی امید
اندھیری راتوں میں بھی چھائی ہے روشنی
ہر سیاہ لمحے کے بعد بھی نظر آتی ہے صبح کی امید

0
5
چاندنی راتوں میں تیری باتیں یاد آئیں
ہر ہنسی، ہر لمحہ تیرے نام کی خوشی ہے
تیرے لمس کی روشنی دل کے اندر چھائی
ہر دھڑکن میں بس تیری محبت کی خوشی ہے
خوابوں کی دنیا میں تیرا عکس نظر آیا
ہر نظر، ہر خیال تیرے رنگ کی خوشی ہے

0
5
وعدوں کے رنگ سب دھندلے ہو گئے
ساتھ کے لمحے بس خوابوں میں رہ گئے
جو باتیں کہی تھیں، سب ہوا بن گئیں
دل کے ارمان تنہا، تنہائی میں رہ گئے
تم نے چھوڑا ہاتھ میرا، بے وفا ہو گئے
پیار کے جزیرے پر صرف زخم رہ گئے

0
3
دل کے زخموں کا سہارا نہ ملا، تجھ سے
پیار کے دریا میں ہی دُور ہو گیا، تجھ سے
چاندنی راتوں میں تیری یادیں آئیں
خاموشیوں میں بھی باتیں ہو گئی تجھ سے
وفا کی راہوں میں ہمسفر کھو گئے
ہر خوشی کا لمحہ دور ہو گیا تجھ سے

0
3
دل میں بڑھتی ہوئی ویرانی کی تصویر بنا
آئنہ توڑ کے حیرانی کی تصویر بنا
میں بناتا ہوں کسی دشت میں جلتے خیمے
اور تو بہتے ہوئے پانی کی تصویر بنا
شوقِ تبدیلیِ انسان کو حیرت میں بدل
خون میں تر ہوئی پیشانی کی تصویر بنا

0
97
اب حوصلہ نہیں ہے کسی کی اڑان میں
انسان مبتلا ہے عجب امتحان میں
ٹوٹا اگر تو کچھ بھی نہ بچ پائے گا حضور
یادیں سنبھال رکھی ہیں دل کے مکان میں
لینے کی بات کیجیے وہ دور ہے کہ اب
سب کچھ ہی بک رہا ہے انا کی دکان میں

0
207
لوگ سارے کہاں مجبور ہوا کرتے ہیں
کچھ تو دانستہ کچھ اور دور ہوا کرتے ہیں
منزلِ غم پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے
بیوفائی کے بھی دستور ہوا کرتے ہیں
جن کے سینے میں محبت کی تڑپ ہوتی ہے
ان کے چہرے بڑے پرنور ہوا کرتے ہیں

0
186
کیسے بتائیں اپنوں سے کیسا صلا ملا
منزل ملی نہ ہم کو کوئی رہنما ملا
سب کچھ ہے آئینے کی طرح سامنے ترے
میں کیا بتاؤں مجھ کو زمانے سے کیا ملا
چاہت کے پھول جب سے کھلائے نصیب نے
ہر اک قدم پہ مجھ کو نیا حادثہ ملا

0
144
چاہتوں میں مت کبھی حد سے گذر کے دیکھنا
لوگ ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں پتھر دیکھنا
کتنی یادیں آئیں گی تم کو رلانے کے لئے
تم کتابوں میں کبھی اک پھول رکھ کے دیکھنا
ریت کے ساحل پہ اب تو بس یہی ہے مشغلہ
پہلے تیرا نام لکھنا پھر اسے مٹا کے دیکھنا

125
پھول بن کر میں تو ہر دل میں اتر جاؤں گا
بن کہ خوشبو میں ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
ہر نئے دن سے نیا عہد کیا جاتا ہے
روز خود سے میں یہ کہتا ہوں سدھر جاؤں گا
ہر نئے موڑ پہ پڑتا ہے غموں سے پالا
رنج و آلامِ سے بچ کر میں کدھر جاؤں گا

0
160
اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
ہم نے سوچا تھا کہ گھل مل کے زرا کم ہوگا
رنج بڑھتا گیا لوگوں سے شناسائی میں

5
312
وقت ساکن ہے سانس جاری ہے
بس ترے بعد یوں گزاری ہے
کسی آہٹ پہ چونکنا کیسا
جب ہے معلوم بے قراری ہے
رات کا روز یہ دلاسہ ہے
آج کی رات صرف بھاری ہے

523
ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک
بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے
وہ ہے خالی گھر کی صورت میں بھرا بازار ہوں
اُس کے جیسی خامُشی ہے میرے جیسا شور ہے
رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے

0
148
زخم دل کے سبھی چھپائے گئے
آنسوؤں سے دیے جلائے گئے
پوری کوشش ہمیں رلانے کی
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے
کیا بتائیں کہ کب ملی منزل
ہم تو ہر گام آزمائے گئے

132
وقت بے وقت قیامت تو نہ ڈھاؤں لوگو
درد پہلے ہی بہت ہے نہ ستاؤں لوگو
ہوش بھی عشق مرا عشق ہی مدہوشی ہے
میں تو دیوانہ ہوں تم ہوش میں آؤ لوگو
میرے سینے میں کبھی جھانک کے دیکھے کسنے
درد کے جلتے یہ ان گنت الاؤ لوگو

0
196
زندگی رہ گزر ہے گزر جائیں گے
تم بھی مر جائے گے ہم بھی مر جائیں گے
ان کا شانہ نہیں ان کا انچل نہیں
چشم تر کیا یہ موتی بکھر جائیں گے
بند ہے یہ گلی اس پہ تیرہ شبی
ہم نوا یہ بتا ہم کدھر جائیں گے

0
175
اندیشہء زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
قزاق اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ

0
289
رستے میں ہاتھ چھوڑ کے دنیا سے ڈر گیا
اک شخص میرے واسطے زندہ ہی مر گیا
جن شدتوں سے وہ مرے سر پر سوار تھا
وہ جلد باز دل سے بھی جلدی اتر گیا
مانگا تھا زندگی سے جو کچھ روز کے لیے
مرهم نما وہ شخص بھی جانے کدھر گیا

254
اُس شخص کی تعریف بھلا کیسے بیاں ہو
جس شخص کو دیکھیں تو گلابوں کا گماں ہو
میں کون سے لفظوں سے اُسے یار سراہوں
جو پاؤں سے سر تک کوئی خوشبو کا جہاں ہو
کچھ شعر مِری آنکھ پہ کھلتے ہی نہیں ہیں
آواز تو دو مِیر کے دیوان کہاں ہو

0
522
ترے انتظار کی ریت پر
کوئی لفظ میں نے لکھا نہ تھا
کوئی حرف میں نے کہا نہ تھا
کوئی خواب میں نے چُنا نہ تھا
اسی انتظار کی ریت پر
مری آرزوؤں گلاب تھے

0
236
تو قریب اتنا مجھے شام و سحر لگتا ہے
دل کی شاخوں پہ محبت کا ثمر لگتا ہے
دیکھی ان دیکھی بہاروں کا اثر لگتا ہے
اور کچھ خوشیوں کے چھن جانے کا ڈر لگتا ہے
تو ملا ہے تو کہوں کیسے ملا کچھ بھی نہیں
آتشِ عشق ہے ایسی کے بچا کچھ بھی نہیں

0
317
چلی ہوا ترے منہ سے جب انکشاف چلے
مرے بھرے ہوئے کیسٹ مرے خلاف چلے
گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت
جو دھوپ چھاؤں میں لے کر ترا لحاف چلے
اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا
چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے

0
121
پھول کدھر جائے گا ٹوٹے گا بکھر جائے گا
خوشبو بن کے تری نس نس میں اتر جائے گا

0
135
زندگی تم سے بندگی تم سے
دل کے آنگن میں چاندنی تم سے
میرے سُر میری شاعری تم سے
میرے گیتوں میں نغمگی تم سے
آنکھ میں ہے تمہارا نُور بسا
دل میں رہتی ہے روشنی تم سے

0
150
یاد ہر ایک ہمیں وہ حسیں ساعت رہ گئی
آنکھوں کے در پہ سمندر کی علامت رہ گئی
سارے الفاظ مخالف میں تمہارے تھے مگر
جب ہوئے روبرو لہجوں میں محبت رہ گئی
بے اثر دستکیں فریاد صدائیں ہیں سبھی
غیر کے کھیل میں اپنوں میں رقابت رہ گئی

0
107
خمار عشق نے آنکھوں میں وہ حروف بھرے
کتاب کوئی ہو مضمون تیرا ہی ھوتا ہے !

0
133
بڑی ہے بات جو تم مان لیتے ہو
حسن والو ہماری کیوں جاں لیتے ہو

0
135
پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے
ہمیں نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی

0
147
تری آنکھوں پہ غزل کہنا بہت مشکل ہے
تری آنکھوں پہ تو قربان جوانی ہوگی

0
135
نظر پڑی کِسی تصویر پے تو یاد آیا
بہت عزیز تھی اِک شخص کو ہنسی میری

0
120
بس ایک ہی دسـتکِ غیبی کے اِنتظار میں ہم
تمام عمر بدن سراۓ میں ٹھہرے ہیں

2
172
آج تو ایک کام کرتا جا
میرا قصہ تمام کرتا جا
زخم جتنے بھی ہیں تمہی نے دیے
مرہموں کو بھی نام کرتا جا
طنز و دشنام ہی سہی چاہے
کچھ تو ہم سے کلام کرتا جا

19
307
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رَکھتی ہَے
مَیں گزَارُوں نہ گزَارُوں یہ گزَر جائے گِی

0
920
نا تھی پرواہ اپنی ذرا بھی مجھے
کھینچ لائی تھی بچوں کی بھوک یہاں

0
104
ہاتھ چُوم نے کی جب کی اِلتجا میں نے
تو مُسکرا کر کہنے لگئے صِرف ہاتھ کیوں

0
137
جانا ہوگا مجھے اجازت دے
خودکشی راہیں دیکھتی ہوگی !
وقتِ رُخصت کفن ہٹا کے مجھے
دیکھ لینا تُمھیں خوشی ہوگی !

0
157
چلا گیا تو نہ آئے گا پھر بلانے سے
تم اس کو روک لو یارو کسی بہانے سے
یہ چارہ گر یہ مسیحا فریب دیتے ہیں
ملے گا کچھ بھی نہیں حالِ دل سنانےسے
یہ بات بات پہ سیکھا ہے جو خفا ہونا
تو مان جانا بھی سیکھو ذرا منانے سے

0
153
دل سے نکال دیجئے احساسِ آرزو
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے

0
345
ہمیں مدت لگے گی بننے میں کچھ
جو ہیں وہ تو خدا بنے ہوئے ہیں

0
102
اور کیا عہدِ وفا ہوتے ہیں
لوگ ملتے ہیں جدا ہو تے ہیں
کب بچھڑ جائیں ھم راہِ ہی تو ہے
کب بدل جائے نظر ہی تو ہے
جان و دل جس پہ فدا ہو تے ہیں
بات نکلی بھی زمانے سے تھی

0
4
396
انسان تو کتنا بھی بہادر کیوں نا ہو
لیکن یہ محبت اسے رولا دیتی ہے

0
3
251
شاعری تو میں دل بہلانے کے لئیے کرتا ہوں ورنہ
دو الفظ کاغذ پر اتارنے سے محبوب کہاں ملتے ہیں

0
2
151
ٹھوکریں مارنے لگتا ہے لہو نس نس میں
کتنا دشوار ہے، تیرا مرا یکجا ہونا

0
125
لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر
وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ
جس کے تابع ہیں جنّات و انسان
فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــانِ
ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــاء
وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء

0
434
ایک مسُلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ہے
مجھکو تیرے ساتھ اپنا کل تلاش کرنا ہے

0
138
اُس کو سُن لوں تو سبھی درد سکوں لگتے ہیں
جانے کِس دھن سے وہ لفظوں کو ادا کرتا ہے

0
481
وہ جو تقدیر میں لکھے نہیں ہوتے
ان ہی کی آرزو کو عشق کہتے ہیں

0
143
کیا کریں ایسی خوشی کو جو بھکاری کر دے
ہم کو جاناں ترے بخشے ہوۓ غم اچھے ہیں

0
90
دل کے سب زخم قرینے سے سجا رکھے ہیں
جو مگر تجھ سے ملے سب سے چھپا رکھے ہیں
جو ہمیں دیکھ کے ہنستے ہیں انہیں کیا معلوم
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
کوئی روٹھے ہوئے ساتھی کو ذرا سمجھائے
سب گلے ہم نے محبت میں بھلا رکھے ہیں

0
154
دسمبر ہوش کر پاگل یہ تجھ کو کیا ہوا آخر
بنا برسے گزر جانا تری فطرت نہ تھی پہلے

0
261
خدا کا شکر مجھے عشق ہو گیا ورنہ
میں تجھ پہ خرچ نہ ہوتا تو رائیگاں جاتا

0
189
مِیاں آہل سُخَن کی دوستی بِھی
ہُوا کرتی ہے تَقریباً مُحبّت

0
127
وہ مسکرا کے دیکھ لیں میری طرف کبھی
بس اُن کی اک نگاہ کی قیمت ہے زندگی

0
89
چل اپنے جیسے گنہگار ڈھونڈ آتے ہیں
نہیں ہیں راس ہمیں رنگ صوفیوں والے
کوئی بلائے تو خط پھاڑ دینا،مت آنا
یہاں مزاج ہیں لوگوں کے کوفیوں والے

0
1019
پوچھا محبتوں کے زمانے کدھر گئے
بولی وہ موسموں کی روانی میں گِھر گئے
پوچھا وابستگی سے تھے کچھ لوگ کیا ہوا
بولی گھٹائیں چھا گئیں سب اپنے گھر گئے
پوچھا کہ میرے بعد کوئی مجھ سا بھی ملا
بولی نہیں ملا ہمیں ہم ہر نگر گئے

0
192
تُمہاری دی ہوئی ہر چیز مُجھ کو پیاری ہے
تُمہارے ہجر میں بھی بن سنور کہ رہتی ہوں

0
83
محبت درد بکھرا سا
محبت لفظ نکھرا سا
محبت آنکھ کا پانی
محبت رات کی رانی
محبت بےتکی تہمت
محبت نور کی مورت

0
151
میرے حالات پہ مسکراہ تو صاحب
یہ دعا ہے تمہیں بھی عشق ہو جائے

0
128
وہ الم کشوں کا ملنا وہ نشاط غم کے سائے
کبھی رو پڑے کبھی زخم ندیم مسکرائے

0
464
دسمبر جا خدا حافظ بہت دکھ درد بانٹے ہیں
کوئی روٹھا کوئی بچھڑا کسی کو چھوڑ آئے ہیں

0
262
نام کو تمہارے اک ہے مقام دے رکھا
لوگ بات منوالیتے ہیں ذکر تیرا کر

0
101
ہر شام یہ کہتے ھو کہ کل شام ملیں گے
آتی نہیں وہ شام ہی جس شام ملیں گے
اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا
کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے
آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے بہانے
ڈرتے ھو ڈراتے ھو کہ الزام ملیں گے

0
1261
میری آنکھوں میں نہ ڈھونڈا کرو آنسو میرے
میں نے سینے میں چھُپا رکھا ہے ہر غم اپنا

0
186
کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہُوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بَسر کیسے ہُوئے
نینْد کب آنکھوں میں آئی کب ہَوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے ویراں نگر کیسے ہُوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کِس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرف دارِ ہوائے رہگُزر کیسے ہُوئے

0
138
بڑی ہی شدت سے آزماتے ہو صبر میرا
کبھی جو خود پے گزاری تو بکھرہ ہی جاو گے

0
140
خاموش سی آنکھوں سے جب بات ھوتی ہے
ایسے ہی محبت کی شروعات ھوتی ہے
تیرے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے رہتے
پتا نہیں کب دن کب ہی رات ھوتی ہے

0
80
کسی کو کیا بتاتی میں
کسی کو کیا سُناتی میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگین افسانہ
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے

0
160
اور جن کی زیادہ قدر کر لی جائے
وہ ہمیں گر ہوا ہی سمجھ لیتے ہیںً

0
71
لبوں کو پھول تو پھولوں کو لب کہا میں نے
بہت ہی پہلے جو کہنا تھا اب کہا میں نے
میں اس بہانے سے ہر بات دل کی کہتا ہوں
ہو شاعری میں بڑا نام کب کہا میں نے
میں سوچ سوچ کہ پاگل ہوا اسی ہی مشل
وہ رویا تھا میری جان جب کہا میں نے

0
143
بجھتا ہوا چراغ بھلا کیا دعا کرے
کہہ دو ہوا سے آج ذرا حوصلہ کرے
بندِ قبا جو کھول کے خوشبو صدا کرے
کیسے نہ چشمِ ناز کو یہ دل شفا کرے
جانے کہاں بچھڑ گئے تھے اپنی ذات سے
ہم کشت گان ہجر ہیں کوئی پتہ کرے

0
164
مشکل بڑی تھی دشتِ محبت کی سَیر بھی
اکڑے تھے اس سفر میں کئی بار پَیر بھی
تجھ سے کسی بھی ربط کی خواہش نہیں رہی
جب دوستانہ ختم تو پھر ختم بَیر بھی
ہر بار ایک رخ نیا آتا ہے سامنے
وہ جتنا آشنا لگا اتنا ہی غَیر بھی

0
162
نئے برس میں محبّت نئی کریں گے ہم
کسی کے ہجر کا یہ آخری مہینہ ہے

0
469
جس نے تنہائی کی بانہوں میں گزاری ہو حیات
تو اسے چھوڑ کے جانے سے ڈراتا کیا ہے
میری جیبوں میں محبت کے ہیں سکے لیکن
آج کے دور میں انکو سکوں سے آتا کیا

0
641
اب محبت کی بات مت کرنا اے دل
زخم پہلہ بھی ابھی سیلہ نا ہے

0
105
تیری آنکھوں کی کشش کیسےتجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے مری نیند اُڑا رکھی ہے

0
120
تُمھارے ساتھ تَخیُّل کے کورے کاغذ پر
میں دن بناتی رہی اور شام ہوتی رہی

0
136
خود کلامی میں راتیں گزر جائیں گی
ہفتہ گزرے گا عمریں گزر جائیں گی
ایک خط میں لکھوں گا بنامِ خدا
پہلی سطروں میں آہیں گزر جائیں گی
اس کی یادیں نہیں آئیں گی اِس طرف
گھر کے باہر سے راہیں گزر جائیں گی

0
143
سرخ سنہری پیلی کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دیکھ کے چھتری کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دریا پار سے دیکھا کرتے تھے
پھر بستی میں کشتی کی ایجاد ہوئی
میں نے تیرے ہاتھ پہ اپنا نام لکھا
اور دنیا میں تختی کی ایجاد ہوئی

0
148
یہ جان کر بھی کہ تُو اپنی دَسترس میں نہیں
وفا کا کھینچ دیا اِک حِصار بس یونہی

0
143
زندگی حقیقت میں بس میں اتنا ہی جانا
درد میں اکیلے ہیں خوشیوں میں زمانہ ہے

0
645
تمہیں یہ فخر تو حاصل ہے تمہیں چاہا گیا
ہمارے پاس یہ احساس بھی ادھورا ہے

0
157
کبھی جو دل تُو دھڑکا دے تو جا کے دل دھڑکتا ہے
کبھی مدھم کبھی ساکت کبھی درہم کبھی برہم
ترے ہی اسم سے جاناں مہکتی صبح ہے میری
کبھی روشن کبھی جھلمل کبھی چپ چپ کبھی پرنم

0
86
تیرے ہونٹوں پہ مسکان سجا دوں
تو ہنسے تو میں غم اپنا بھلا دوں
کوئی پوچھے مری جان ہے کس میں
مسکرا کے اسے نام بتا دوں

0
185
عشق ویرانے کی وہ راہ گزر ہے جس پر
دِل ٹھہر جاتا ہے اور عمر گزر جاتی ہے

0
238
ھم تیرے لگتے تو کچھ بھی نہیں مگر ہے یہ
نہ جانے بن ترے کیوں ہم اداس رہتے ہیں

0
155
یہ تھا ہی نہیں کہانی کا انجام اصل مِیں
کیا کیجئے کہ بِیچ مِیں کردار بِک گئے
یہ لازم ہے رکھیے اپنی نظر آستین پر
یہ سننے مِیں آ رہا ہے نمک خوار بِک گئے

0
140
میری کتابِ زیست تم اک بار تو پڑھو
گر چاہے پھینک دو کسی اخبار کی طرح
ـ

0
96
سارے غموں کی وفات ہو جاتی ہے
جب میری تم سے بات ہو جاتی ہے،

0
151
عادتیں ڈال کر اپنی توجہ کی
ایک دم جو بدلتے ہیں ستم کرتے

0
470
ہم بھی شوقین پینے کے ہیں
جب ہیں پیتے تو چائے پیتے

0
75
رشتہ رکھنا ہو تو اچھائی بیاں کرتے رہو
ختم کرنا ہو تو سچائی بیاں ہی کر دو

0
92
ساتھ اپنوں کا نبھانا تو کوئی بات نہیں
غیر کا بن کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
عمر کر دینا محبت میں عجب کیا صاحب
تم مجھے مر کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
تم جو کرتے ہو محبت پسِ دیوارِ انا
تم یہ دیوار گِراؤ ہی تو کوئی بات بنے

0
132
ہم جیت بھی سکتے تھے اس عشق کی بازی کو
وہ جیت کے خوش ہوگا یہ سوچ کے ہم ہارے

0
153
دل کی دھڑکن ہوا کرے کوئی
میرے دل میں بسا کرے کوئی
آتشِ عشق میں فنا ہو کر
رقص بسمل کیا کرے کوئی
ٹوٹ کر چاہے میرا ہو کے رہے
زندگی بھر وفا کرے کوئی

0
295
لاکھ بولا نہ قتلِ عام کرو
باز آئی نہ تم سنورنے سے

0
88
وہ پڑھ رہا ہے ان دنوں اوروں کی شاعری
میں اس کے انتخاب میں شامل نہیں رہی

0
116
کبھی تو ان کی بھی قدر کر کے ہی دیکھیں
جو آپ سے بنا مطلب کے پیار کرتے ہیں

0
73
تجھ کو پا کر بھی کچھ نہیں پایا
تیرے ہو کر بھی بے سہارے ہیں

0
125
روز کی طرح ہی آج بھی درد کو
ہم چھپانے لگے تھے مگر رو پڑے

0
118
پھر سے تیری کمی محسوس ہوئی شدت سے
آج پھر دل کو منانے میں بہت دیر لگی

0
333
اکھیاں وچ تو وس دا ایں
میں صدقے جاواں اکھیاں دے

0
290
تیرے لفظوں میں وہ تفصیل کہاں
اپنی آنکھوں سے کہو، بات کرے

0
112
تو جو بھی بول مگر ہمکلام رہ مُجھ سے
تُو جانتا ہے مجھے چپ سُنائی دیتی ہے

0
193
پیار کرنا دغا نہیں کرنا
دل کو دل سے جدا نہیں کرنا
غیرتِ ضبط کا تقاضا ہے
درد سہنا، گلِہ نہیں کرنا
لڑکیاں زود رنج ہوتی ہیں
کبھی ان کو خفا نہیں کرنا

0
106
وہ مری شامیں سہانی اور چُپ
ہائے اُس کی بدگمانی اور چُپ
طاقچوں میں رات کے رکھی رہیں
دو جلی شمعیں پرانی اور چُپ
اپنے اپنے ذائقے میں زہر ہیں
آنکھ کا یہ کھارا پانی اور چُپ

0
91
میں نے الفت کے فسانوں میں پڑھا ہے تمہیں
تم وہی ہو جو کہ دھڑکن کو بڑھا دیتے ہو

0
221
آخری دیپ ہے بھروسے کا
سرد لہجے بجھا نہ دیں اس کو

0
137
سلجھا کے اپنی زُلف کو وہ مطمئن ہیں یوں
جیسے کوئی جہاں میں پریشاں نا رہا

0
179
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا

0
575
جسم سے روح نکلنے کا سماں ہو جیسے۔۔!
جان لیوا ھے ترا مجھ سے گریزاں ہونا۔!!

0
120
بہت ہے بھی سکوں گہرا بہت اجلی ہے خاموشی
بہت آباد لہجے میں، بہت سنسان ہے کوئی!!!!!!!

0
194
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
75
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
107
کوئی بانٹے مرے ساتھ مری تنہائی
ڈھونڈ کے لا دو مجھے زیست سے ہارا کوئی

0
84
کس قدر کارِ اذیت ہے ذرا سوچو تو
جس نے ملنا ہی نہیں اس کی تمنا کرنا

0
280
تو نے چپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی زمانے سے ہوئی

0
181
تیرا وجود روجوں کے اعتکاف پر
میرا وجود تیرے ہی عین شین قاف

0
103
چاندنی رات کے خاموش ستاروں کی قسم
دل میں اب تیرے سوا کوئی بھی آباد نہیں

0
192
تیری صورت ہی مری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

0
105
ہم کو مارا گیا ہے نفرت سے
ہم پہ الزام تھا محبت کا

0
103
نہیں فرصت یقیں جانو ہمیں کچھ اور کرنے کی
تری باتیں تری یادیں بہت مصروف رکھتیں ہے

0
234
تم اگر چاہو تو تجدید محبت کے لیے
ایک ہلکا سے تبسم کی اک انگڑائی بہت

0
139
طبیب تھک چکا مگر یہ گھاؤ بھر نہیں رہا
شفا کی آس مر چکی مریض مر نہیں رہا

0
858
اشعار کے پردے میں جذبات بیاں کرنا
کیا خوب سلیقہ ہی ھے لفظوں کو زباں کرنا

0
137
ہاتھ ہاتھوں میں لے لیا اُس نے
جتنے گھاؤ تھے بھر گئے دل کے

0
342
پھر سے اک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے

0
478
بہت سا عرصہ ہوا نا آیا خبر بھی لینے
بڑا تھا آیا یہ زندگی بھر کا ساتھ دینے

0
96
کوئی امید ملاقات کی ہی دلا دو بس
پھر انتظار تو ہم ساری عمر کر لینگے

0
98
دل ہے یوستہ کسی شخص کے دل سے میرا
ہاتھ میں ہاتھ نہیں ہے کہ چھڑاتل جاؤ

0
78
عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا

0
160
چُھٹی کوئی مرے ساتھ مَنا گاؤں میں
کوئی خُوش بَخت سا اتوارمُکمل کر دے

0
92
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کیسی عزیز سے کوئی کب تک خفا رہے

0
73
ہر ایک بات پہ اسکا جواب ہے لیکن
تمام بحث کا لب و لباب ہے لیکن
ہمارے پاس نہیں خواب کی حقیقت دوست
ہمارے پاس حقیقت کا خواب ہے لیکن
کوئی خلا ہے جو بھرتا نہیں کسی صورت
ہر ایک چیز ہمیں دستیاب ہے لیکن

0
107
جا چکے اب تو مری فکر کمانے والے
دن وہ بچپن کے نہیں لوٹ کے آنے والے
اب نہ وہ رنگ نہ خوشبو کے وہ میلے ٹھیلے
لے گئے ساتھ مرا وقت سجانے والے
لے گئے چاند بھی تارے بھی مری شامیں بھی
جو تھے جگنو مری راہوں میں بچھانے والے

0
142
میں ترے لب پہ ہوں دیرینہ شکایت کی طرح
یاد رکھنا ہے مجھے تو نے عداوت کی طرح
چاند نکلے تو مرا جسم مہک اُٹھتا ہے
رُوح میں اُٹھتی ہوئی تازہ محبت کی طرح
تیری خاطر تو کوئی جان بھی لے سکتا ہوں
میں نے چاہا ہے تجھے گاؤں کی عزت کی طرح

0
606
اب حالِ دل نہ پوچھ، کہ تابِ بیاں نہیں
اب مہرباں نہ ہو کہ ضرورت نہیں رہی

0
1020
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوۓ
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

0
185
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی صرف محبّت نہ ملی

0
250
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے بڑے ہی خوبصورت ہیں

0
711
بس اتنے ہی سے الفاظ کہنے ہیں تم سے
خیال رکھا کرو اپنا اچھے لگتے ہو

0
117
تو دل میں آئی تو ہر شے نکل گئی دل سے
تری طلب نے زمانے سے بے طلب رکھا

0
146
کوئی کردار تو تم لائو ہمارے جیسا
ہم اسی روز کہانی سے نکل جائیں گے

0
140
خاک میں گزرا ہوا کل نہیں ڈھونڈا کرتے
وہ جو پلکوں سے گرا پل، نہیں ڈھونڈا کرتے
پہلے کچھ رنگ لبوں کو بھی دیئے جاتے ہیں
یونہی آنکھوں میں تو کاجل نہیں ڈھونڈا کرتے
بیخودی چال میں شامل بھی تو کر لو پہلے
یوں تھکے پیروں میں پائل نہیں ڈھونڈا کرتے

0
144
تم کو ترسنے کا مطلبِ سمجھ میں آ جائے
ہمارے سامنے کچھ دیر بیٹھ کر دیکھو

0
74
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

0
101
‏بھیجی تم نے ڈاک میں کتنی اداسیاں
چہرہ اُتر گیا مرا مرجھا گئے ہیں پھول

0
83
کہانی کار نے سب کو بتا دیئے کِردار
مجھے بس اتنا کہا ہے کہ تم نے مرنا ہے

0
206
ہٹا کر کفن مجھے بار بار تو دیکھیں گے
انھیں میرے مرنے کا اعتبار بھی نا ہو گا

0
96
صرف دھوکہ ہی دے سکا وہ
اُس کی اوقاتِ اتنی ہی تھی

0
81
جاگی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں
کچھ تعلق عذاب ہوتے ہیں
ٹوٹنے تک یہ کچھ نہیں ہوتے
ٹوٹ جائیں تو خواب ہوتے ہیں
کچھ مسائل کا مسئلہ یہ ہے
حل کرو تو خراب ہوتے ہیں

0
375
خزاں میں ہی شاخ سے گرتے پتوں نے اُداس
‏مجھے یہ درس دیا ہے زوال سب کو ہے

0
115
کچھ ہی قدموں کی دوری پر تھی
منزل کے بہت قریب تر تھی

0
84
کہاں رہی وہ محبت ہے آج کل
بہت سے لوگ ہوس کا شکار ہے

0
86
میرا گلا کرنا بنتا بھی نہیں ہے
کیونکہ وہ تو پہلے ہی بے وفا تھا

0
72
کسر کسی نے ہی نہیں چھوڑی مجھے مٹانے کی
خدا محافظ رہا میرا ہر زمانے میں ندیم

0
149
اپنی ہر بوند تری یاد کی لذت لیکر
بارشیں آگ لگانے کا ہنر لائی ہیں

0
130
ہم نکالیں گے اے سُن موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

0
100
ایک احساس ہی دل میں جگانے کے لیے
بات کرتے ھوئے مر جائیں تو کیسا ھوگا

0
141
ہر چیز ہی کہ مل جاتی ہے کہ ہی دعا سے
اک بار تمہیں مانگ کردیکھیں گے خداسے

0
82
شاعری شوق نہیں اور نہ ہی کار وبار
درد برداشت نہیں ہوتا تو لکھ دیتا ہوں

96
اب کسی کو کسی سے ڈر ہی نہیں
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

0
116