| مقامِ آگہی پر آ، نہیں یہ مرثیہ تجھ سے
|
| کہیں گے لوگ دنیا میں، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
|
| ہنر اپنا جگا دل میں، نہ مانگ بھیک منزل کی
|
| سفر ہے تیری منزل کا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
|
| خودی کو کر بلند اتنا، کہ تیری ذات ظاہر ہو
|
| جہانِ نو کا خالق ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
|
|
|