Circle Image

محمد ندیم

@Nadeemgujjar

اردو شاعری

جو دل کو ملا ہے، وہ اپنا کہاں ہے
یہ سب کچھ تو دنیا کا اپنا جہاں ہے
کوئی ہم سے پوچھے یہ کیا ماجرا ہے
ہر اک شخص کیوں خود سے برہم ہوا ہے
عجب زندگی کا عجب فلسفہ ہے
کوئی دل جلا ہے، کوئی خوش ہوا ہے

0
3
یقیں اب کسی پر رہا ہی نہیں
کوئی دل میں درد آشنا ہی نہیں
جہاں ہم کھڑے ہیں، وہ اپنی زمیں
کوئی نقشِ پا ہے، خلا ہی نہیں
وہ بادل جو دل پر برسنے تھے اب
جو اٹھے تھے دل سے، گھٹا ہی نہیں

0
2
کوئی میرے دل میں مکین اب کہاں ہے
کوئی درد کا اب نشاں بھی عیاں ہے
میں خود سے ہی پوچھا، کدھر ہے وہ اپنا
پتا کچھ لگا ہی، مگر وہ نہاں ہے
یہ کس نے کہا تھا، کہ ہنستے بہت تھے
یہاں کوئی دم ساز، کوئی گماں ہے؟

0
4
کوئی بات دل میں دبی رہ گئی ہے؟
یہ آنکھوں میں کیسی نمی رہ گئی ہے؟
میں ہنستا ہوں لیکن نہیں ہنس رہا ہوں
مرے ساتھ شاید خوشی رہ گئی ہے
یہ دل بھی عجب ہے، اسے کیا بتاؤں
کہ بس تیری ہی اب کمی رہ گئی ہے

0
3
وہ دورِ جہاں تاب اب آ چکا ہے؟
کہ جس میں ہر اِک در پہ ماتم بپا ہے
نہ وہ جوشِ ملت، نہ وہ جذبِ کامل
فقط رسمِ دیں ہے، فقط اِک رِیا ہے
یہ خاموشیاں ہیں، یہ مردہ ضمیری
یہاں روحِ ملت عجب بے نوا ہے

0
5
نہ کوئی بھی ذکر اب، نہ نام و نشاں ہے
کہاں تک کسی سے، بھلا کیا کہیں اب
*
یہ دنیا ہے ظالم، یہ دنیا ہے جابر
ستم اور جفا کو، سہا کیا کہیں اب
*

0
2
کوئی پھول دل کا، جو کملایا تھا کل
وہ لگتا ہے تازہ، وہی آج بھی ہے
*
جو سر پر تھا سایہ، کسی مہر جاں کا
وہ آنکھوں میں بادل، وہی آج بھی ہے
*

0
3
نہ حرفِ وفا کا، نہ قولِ محبت
کوئی اب سہارا نہیں ہے خوشی کا
*
عجب دشتِ ہجراں، عجب چاکِ داماں
کوئی اب کنارا نہیں ہے بچی کا
*

0
5
نہ حرفِ تمنا، نہ کوئی شکایت
کہ اب دل میں کچھ بھی نہیں ہے بقایا
وہی چاندنی ہے، وہی چاند تارے
مگر کوئی منظر نہیں ہے پرایا
عجب طور ہیں اب، عجب رسمِ الفت
کہ خود کو ہی ہم نے بہت آزمایا

0
7
وفا کا ارادہ کہاں سے کروں میں
کہ اب دل تو اپنا نہیں ہے کسی کا
ستارے بھی ٹوٹے، وہ جگنو بھی بکھرے
کوئی اب سہارا نہیں ہے خوشی کا
یہاں رسمِ دنیا، عجب ہے، نرالی
کوئی بھی ہمارا نہیں ہے سخی کا

0
5
نہ کر ذکرِ الفت، نہ کر بات دل کی
کہ اب دل میں حسرت نہیں ہے کسی کی
««
کسی کو سنانا، کسی کو بتانا
رواؔیت محبت نہیں ہے سبھی کی
««

0
4
عجب یہ بے حسی چھائی، کوئی اب سن نہیں سکتا
جو دل میں درد ہے پنہاں، کوئی اب کہہ نہیں سکتا
یہاں تو مصلحت کوشی، یہاں تو رسمِ دنیا ہے
کوئی اپنا نہیں ہوتا، کوئی اب رہ نہیں سکتا
یہ مانا زندگی مشکل، مگر جینا تو لازم ہے
جو دل پر بوجھ ہے اپنا، کوئی اب سہ نہیں سکتا

0
7
جو دل پر زخم لگتے ہیں، وہ کیا اب آشنا ہوں گے؟
یہ اپنے درد کے قصے، سرِ محفل بیاں ہوں گے
کوئی پرسانِ حال اپنا، کہاں اب اس زمانے میں
جو اپنے تھے سو بیگانے، وہ کیوں کر مہرباں ہوں گے؟
یہ مانا بے وفائی ہے، مگر شکوہ نہیں کوئی
یہاں تو پیار کے دعوے، فقط دھوکا و گماں ہوں گے

0
5
عجب یہ زندگی ٹھہری، عجب اس کا فسانہ ہے
نہ کوئی غم ہے جینے کا، نہ کوئی اب بہانہ ہے
یہ دل کیا جانے کیا چاہے، یہ دل کس کا دوانہ ہے؟
نہ کوئی بزم ہے اس کی، نہ کوئی آشیانہ ہے
یہاں خود سے نہیں نسبت، عجب یہ بیقراری ہے
جو دل میں بس گیا اپنے، وہی اب بے وفائی ہے

0
5
ہماری چشمِ حیراں کا، کوئی اب مدعا ہوگا؟
جو دل سے درد اٹھتا ہے، وہ کیا جانِ وفا ہوگا؟
نہ پوچھو کیفیت دل کی، عجب یہ ماجرا گزرا
کہ ہر اک زخمِ تازہ اب، گُلِ رنگیں نما ہوگا
یہ مانا بے بسی اپنی، مگر شکوہ نہیں کوئی
جو ہونا ہے سو ہو جائے، نہ کوئی آسرا ہوگا

0
3
یہ انساں عجب اک تماشا بنا ہے
نہ دنیا میں پورا نہ عقبیٰ رسا ہے
یہی خاک داں کا مکیں ہے جو دیکھو
یہی راز دارِ دلِ ماسوا ہے
نہ اوجِ ثریا کی اس کو خبر ہے
نہ اپنی ہی منزل کا اس کو پتا ہے

0
3
نئی صبح کی اب کوئی جستجو ہو
جو دل مردہ ہیں ان میں پھر زندگی ہو
یہی ایک پیغام لائے گی منزل
سفر میں اگر کچھ نئی روشنی ہو
نہ مایوس ہو دل، کہ قسمت بدلتی
جو ہم میں ارادہ، نئی آگہی ہو

0
4
یہ کیسا جہاں ہے یہ کیا ماجرا ہے
ہر اک سمت اک شور برپا ہوا ہے
یقیں کو یہاں اب کوئی ڈھونڈتا ہے
گماں کا ہر اک دل میں ڈیرا ہوا ہے
نہ وہ علم ہے اب نہ وہ آگہی ہے
فقط اک تعلق سا رشتہ ہوا ہے

0
4
یہ کہسار و دریا، یہ دشت و چمن،
ہر اک شے میں پنہاں، ہے رازِ کہن۔
سحر کا تبسم، شفق کی بہار،
یہی زندگی کا، ہے سوزِ سخن۔
خودی کو جو سمجھے، وہ مردِ خدا،
اسی کی نظر میں، ہے ہر انجمن۔

0
4
مقامِ یقیں گر، ملے جستجو کو،
یہ رازِ نہاں ہے، بتا تو کیا ہے؟
خودی پر جو سمجھے، رہِ زندگی کو،
حقیقت میں انساں، بھلا تو کیا ہے؟
یہ دنیا ہے ساری، فریب و نظر کو،
حقیقت میں اس کا، صلہ تو کیا ہے؟

0
3
مقامِ یقیں اور، عمل کا ہنر،
اسی سے ہے پیدا، ترا ہر اثر۔
**
نہ ڈر ظلمتِ شب، کی یلغار سے،
کہ خورشیدِ تاباں، ہے تیرا اثر۔
**

0
4
یہاں دل میں اپنے، جگا اک چراغ،
کہ روشن ہو تجھ سے، ہر اک داغ داغ۔
**
خودی کا ہنر سیکھ، پرواز کر،
شکستہ نہ کر اپنے، پر اور ایاغ۔
**

0
5
اٹھا پردہ رازِ خودی، اے ندیم،
کہ ہے زندگی کا یہی اک ندیم۔
**
نہیں تیری منزل، یہ خاک و حیات،
بلند اور ہو کر، چلا جا ندیم۔
**

0
3
نہ کوئی بہاریں، نہ کوئی سروریں
فقط غم کے دل میں، بسی منزلیں ہیں
نہ دل کو سکوں ہے، نہ کوئی خوشی ہے
فقط غم کدے کے، یہی سلسلے ہیں
یہاں پر نہ یاروں، نہ کوئی وفائیں
فقط رنج و غم کے، یہی مرحلے ہیں

0
3
فقط اک سفر ہے، گماں بھی یہی ہے
یہ دنیا سراسر جہاں بھی یہی ہے
جو دل میں مرے گھر بنا کر رہا ہے
وہ خواب و خیال و گماں بھی یہی ہے
کبھی ہجر کا غم، کبھی وصل کی شب
مرے درد کی داستاں بھی یہی ہے

0
3
کہیں نور کی اک کرن دیکھتے ہیں
یہی آس ہر انجمن دیکھتے ہیں
فلک پر جو تارے چمکتے ہیں شب بھر
انہیں مہر کا تن بدن دیکھتے ہیں
کوئی خواب دل میں اگر آ بسے تو
اسی خواب کا پیرہن دیکھتے ہیں

0
4
وہ بستر سے اٹھ کر، جو انگڑائی دیکھے
تو ہر دل میں فوراً، سماں خوب دیکھے
بدن کی وہ لچکن، قیامت کا منظر
زمیں پر فلک کا، گماں خوب دیکھے
گلوں میں جو خوشبو، نہیں تھی میسر
وہ اس نازنیں کے، نشاں خوب دیکھے

0
4
وہ آئے ہیں گھر میں، بہار آ گئی ہے
ہر اک شے میں جیسے، نکھار آ گیا ہے
لبوں پر تبسم، نگاہوں میں الفت
دلِ بے قراراں، سنوار آ گیا ہے
گلوں میں جو خوشبو، چھپی تھی کہیں پر
وہ ان کے بدن سے، پکار آ گیا ہے

0
4
یہ حُسن یار ہے یا آسماں کا تارا ہے
جہاں میں عام جو ہر دل کو اک اشارہ ہے
نگاہِ ناز کا عالم، وہ زُلفِ شب رنگی
ہر ایک ادا میں عجب ایک حسین نظارہ ہے
یہ چاند چہرہ، یہ آنکھیں، یہ شرمگیں لہجہ
خدا نے حُسن کو کیسا کمال بخشا ہے

0
4
یہ آنکھیں نہیں مے کدہ سے ہوئے
جہاں دل کے غم سب رہا سے ہوئے
انہیں دیکھ کر دل میں الفت بڑھی
محبت کے چرچے بپا سے ہوئے
عجب رنگ آنکھوں کا دیکھا ہے جب
گلستاں خفا آج کیا سے ہوئے

0
4
یہ لب ہیں کہ یاقوت و مرجاں ہوئے
مری جان کیا خوب انساں ہوئے
مہک ان کی ہر سُو بکھرنے لگی
گل و لالہ بھی آج حیراں ہوئے
کبھی ان سے نکلی جو شیریں سخن
تو غنچے چمن کے غزل خواں ہوئے

0
5
وہاں پہنچتے ہی دل کا عجیب لگتا ہے
سفر میں رہبر سب ہی بچھڑ ہی جاتے ہیں
یہیں کہیں پہ ترا نقشِ پا ملا تھا ہمیں
یقین تھا کہ وہیں سے خدا نکلتا ہے
کوئی بھی خواب مکمل نہیں ہوا اب تک
مگر امید کا اک سلسلہ نکلتا ہے

0
3
نہ تُو خاک داں کا مکیں ہے ندیم
یہی سوچتا ہے تو کیوں ہے ندیم
یہ ایک مردِ تن آساں نہیں ہے
یہ پایا جہاں سے ہنر ہے ندیم
خودی کو جو سمجھے وہ انساں نہیں
یہ خالق کا رازِ نہاں ہے ندیم

0
5
وفا کا جو دعویٰ ہے تم کو، مِلا کیا؟
محبت کا حاصل جو دیکھا، ہوا کیا؟
ہزاروں غموں کا جو بوجھ اب اٹھایا
لبوں پر تبسم ابھی تک سجا ہے
نہ دیکھو جو ظاہر میں صورت ہماری
ہر اک نقش میں اک چھپا مدعا ہے

0
5
وفا کا ارادہ جو دل میں بسا ہے
یہ مت کہہ محبت میں کچھ اب بچا ہے
ہزاروں غموں کا جو بوجھ اب اٹھایا
لبوں پر تبسم ابھی تک سجا ہے
نہ دیکھو جو ظاہر میں صورت ہماری
ہر اک نقش میں اک چھپا مدعا ہے

0
5
جو دل میں ہے اس کو سنا کر تو دیکھو،
محبت کی شمعیں جلا کر تو دیکھو
کبھی میرے پہلو میں آ کر تو دیکھو،
ذرا پاس اپنے بلا کر تو دیکھو
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں"،
نئے راستے کچھ بنا کر تو دیکھو

0
6
خودی کا یہ جوہر جواں اب ہوا ہے،
یہ مسلک "خودی" کا بڑا آشنا ہے
کہاں تک رہے گا یونہی بے خبر تو؟
تجھے اپنا جوہر دکھانا سکھا ہے
ستاروں سے آگے نکل جا کہ منزل،
فقط ایک تیرا ہی رستہ بنا ہے

0
4
خدا کے سوا کون سنتا ہمارا،
وہی ہے ہمارا، وہی ہے سہارا
وہی ربِ واحد، وہی ربِ اکبر،
اسی نے زمیں پر ہمیں ہے اتارا
اسی کے اشارے سے چلتا جہاں ہے،
اسی نے ستارے کیے ہیں سنوارا

0
3
وہ آیا نہیں دل سنبھلتا نہیں ہے،
غمِ یار سینے سے ٹلتا نہیں ہے
یہ شعلہ محبت کا ایسا عجب ہے،
بڑھاتا ہے حدّت، پگھلتا نہیں ہے
کسی نے دیا دل کو ایسا سہارا،
کہ اب درد پہلو بدلتا نہیں ہے

0
5
چلے آؤ ساقی، وہ بادہ پلا دو
جو غم کو بھلائے، وہ مے اب عطا ہو
ستاروں بھری شب، یہ خاموش منظر
کوئی داستانِ محبت سنا دو
پریشان ہوں میں، مرا دل ہے مضطر
کوئی بات ایسی، مرے دل کو بھلا دو

0
4
اٹھو اب کہ شب کا، سماں ختم ہوگا
اندھیرا مٹے گا، سویرا نیا ہے
جدھر بھی نظر کی، ادھر غم ہی پایا
یہ کیسی ہے دنیا، یہ کیا ماجرا ہے
نہیں کوئی اپنا، نہیں کوئی پرساں
ہر اک دل یہاں پر، عجب مبتلا ہے

0
3
وفا کا ارادہ جو دل میں بسا ہے
یہ سودا عجب ہے، یہ کیسا نشہ ہے
کسی کو خبر کیا، یہ دل کس طرح اب
فراقِ صنم میں، سسکتا رہا ہے
چمن میں جو دیکھا گلوں کو ہنستے
خیالِ بہاراں، ہمیں کیوں رلا ہے

0
4
ہوئی ہے شام غم، دل اب خفا ہے
عجب اب زندگی کا ماجرا ہے
تری یادوں کا پھر منظر سجا ہے
سکونِ دل کا اب قصہ ہوا ہے
غمِ ہجراں سے دل اپنا ہوا چور
ہر اک لمحہ قیامت بن گیا ہے

0
3
یہ دل کا ساز ہے، اس میں کوئی کمی تو نہیں
سخن وری کا ہنر ہے، کوئی نمی تو نہیں
یہ بحر ہم نے سلیقے سے اب سجائی ہے
کہ اس میں وسعتِ دریا، کوئی نمی تو نہیں
یہ قافیہ ہے کہ اس سے کلام روشن ہے
سخن میں اس کے سوا کوئی روشنی تو نہیں

0
5
تری جستجو ہی تجھے کام دے گی
یہ دنیا تجھے اک نیا نام دے گی
عمل سے ہی حاصل ہے سب کچھ جہاں میں
یہ محنت تری صبح کو شام دے گی
خودی کو جگا لے، یہی روشنی ہے
یہی دل کو تیرے نیا جام دے گی

0
4
نہ ڈر خوف سے تُو، عمل ساتھ دے گا
یقیں کر خدا پر، وہ ہر بات دے گا
یہ عزمِ جواں ہی تری روشنی ہے
یہی راستہ تجھ کو حالات دے گا
جہاں میں جو محنت کرے گا وہ انساں
وہی اپنی منزل کو سوغات دے گا

0
6
کبھی تو یہ دلِ ویراں سنورنے والا ہے
غمِ حیات کا زنداں بکھرنے والا ہے
بہت ہوا ہے کرم گردشِ زمانہ کا
ستم بھی اب کوئی تازہ گزرنے والا ہے
یہ زندگی جو تری جستجو میں گزری ہے
اسی سے حاصلِ عرفاں ابھرنے والا ہے

0
3
نہ گیا وقت ہاتھ سے اپنے
زندگی ہے حیات سے اپنے
یہ جو عالم ہے رنگ و بو سارا
پوچھ اس کائنات سے اپنے
کوہِ منزل بلند ہے لیکن
کٹتے ہیں مشکلات سے اپنے

0
2
وفا کیش بن جا، وفا دیکھ لے گا
خودی میں ذرا سا خدا دیکھ لے گا
یہی زندگی کا کڑا امتحاں ہے
جو خود کو سنبھالا، بپا دیکھ لے گا
نہ کر فکرِ فردا کہ یہ بزمِ ہستی
عمل سے ہی اپنا صلہ دیکھ لے گا

0
2
یہ دل فریب نظارے نہ ہوں تو کیا کیجیے
جو دل کو چین نہ دے وہ بھلا کہاں کیجیے
تمہاری یاد میں گزرے ہیں روز و شب اپنے
کبھی تو آؤ کہ اس غم کا بھی مداوا کیجیے
جہاں میں اور بھی دکھ تھے، ہمیں خبر ہے مگر
ترے فراق میں جو کچھ ہوا، وہ کیا کیجیے

0
5
یہ دنیا علم ہی سمجھے، کوئی جادو نہیں ہے
جو ہاتھ تھام لے بانہوں میں، وہ خدا نہیں ہے
عجیب خواب ہیں بکھرے ہوئے حقیقتوں میں
کوئی بھی شخص یہاں اپنا آشنا نہیں ہے
وفا کی بات نہ کر، عہدِ رفتگاں ہے وہ اب
کہ آج کل تو کوئی وعدہ ہی وفا نہیں ہے

0
4
یہ جو دیوار سی حائل ہے گرا دی جائے
آؤ ہمت کریں اور بات بڑھا دی جائے
زندگی کیا ہے اگر صرف گزر ہی جائے
کوئی تو شکل اسے تازہ نما دی جائے
اب یہ دنیا ہمیں تسلیم نہیں کرتی تو
کیوں نہ اس شہر کو اک اور سزا دی جائے

0
4
یہاں ہر دل میں پنہاں ہے کوئی انمول سی دولت
یہی سرمایۂ ہستی، یہی معراجِ آدمیت
مقامِ آگہی بخشا ہے تو نے خاک کے پیکر کو
یہ تیری شانِ یکتائی، یہ تیری مصلحت، حکمت
نہیں ممکن کہ خالی ہاتھ لوٹ آئے کوئی سائل
تری درگاہ میں موجود ہے ہر درد کی راحت

0
4
نہ پوچھو کیف و کم مجھ سے، سفر ہے کِس بیاباں کا
فقط جاری ہے اک جستجو، اک راز پنہاں کا
یہ دنیا ایک سرابِ رنگ و بُو ہے، اور کچھ نہیں
حقیقت اس سے ماورا ہے، ادراکِ نگہباں کا
جو دل بیدار ہو جائے تو منزل خود قدم چومے
فقط لازم ہے یہ سودا، خلوصِ قلب و ایماں کا

0
6
زلف تیری کہکشاں ہے، دل اسیرِ پیچ و خم
ہو گیا ہے زندگی کا اب تو حاصل پیچ و خم
جب کھلی زلفیں تری، اِک حشر برپا ہو گیا
جیسے چھایا ہو جہاں میں، کوئی بادل پیچ و خم
اِس سیہ کاری پہ تیری، دل مرا قرباں ہوا
ہو نہ جائے اب کہیں یہ، میرا قاتل پیچ و خم

0
4
نظروں کا تِیر آیا، دل کو شکار کر کے
جینا محال کر ڈالا، اپنا خمار کر کے
اِک رنگ ہے نیا سا، اِن بادلوں سی آنکھوں
چہرے پہ کچھ لکھا ہے، بے اختیار کر کے
پَلکیں گِریں جب اُن کی، اِک حشر سا بپا تھا
دُنیا بدل گئی ہے، اپنا سنگھار کر کے

0
4
یہ زندگی بھی عجب اک سفر سی لگتی ہے
ہر ایک موڑ پہ بس ایک ڈر سی لگتی ہے
نہ کوئی اپنا، نہ کوئی شریکِ غم اپنا
یہ کائنات بھی اب ایک گھر سی لگتی ہے
چراغ جلتے رہے پر ضیا نہیں ہوتی
ہر ایک شام مجھے بے سحر سی لگتی ہے

0
5
وفا کی راہ میں چلنا محال ہو گیا اب
ہر ایک چہرہ یہاں پر وبال ہو گیا اب
ہمیں خبر نہ ہوئی اور دل یہ ٹوٹ گیا
عجب سفر تھا کہ جینا محال ہو گیا اب
وہ جن سے پیار تھا، اب اجنبی سے لگتے ہیں
کہ دوستی کا نیا کوئی سال ہو گیا اب

0
5
وفا کے باب میں اب کوئی بھی اشارہ نہیں
یہاں پہ دل کو کسی کا کوئی سہارا نہیں
ہزاروں لوگ ملے زندگی کی راہوں میں
مگر وہ ایک جو اپنا تھا، اب کنارہ نہیں
یہ دل بھی ٹوٹ کے بکھرا تو یہ ہوا معلوم
کہ اس حیات میں کچھ بھی ہمیں گوارا نہیں

0
6
یقیں وہ راہ ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
یہ دل ہے موم سا، اس میں کوئی شرارہ نہیں
غمِ حیات کو سمجھا اگر تو درد سمجھ
خوشی وہ آگ ہے جس کا کوئی اشارہ نہیں
یہاں تو رسمِ محبت بھی اک کہانی ہے
وفا کا ذکر نہ کر، اب کوئی سہارا نہیں

0
4
جو ہو سکے تو محبت کے راستے پہ چلیں
دیارِ دل سے غموں کے سبھی نشاں کو چلیں
یہ زندگی تو فقط رنج و غم کا میلہ ہے
کچھ اس طرح سے جیو، پھر خوشی خوشی سے چلیں
کسی کے واسطے رکنا تو اب محال ہوا
ہوا کے دوش پہ جیسے کوئی دھواں سے چلیں

0
3
سفر میں دُھوپ تھی اور سایہ دار پیڑ کہاں
عجب دیار ہے، کوئی بھی ہم کنار کہاں
ہزار چہرے ہیں بازارِ شہرِ جاں میں مگر
وہ جس کی آس تھی دل کو، وہ یارِ غار کہاں
یہ دل فریب سی دنیا، یہ عارضی منظر
کوئی بھی شے یہاں باقی، کوئی قرار کہاں

0
4
وفا کی راہ میں ہر گام پر سوال ہوا
عجب سفر تھا کہ ہر موڑ پر ملال ہوا
ہماری آنکھ نے دیکھا تھا خواب جینے کا
مگر یہ دل تو غمِ زندگی سے چاک ہوا
وہ آئے بزم میں اور چھا گئے، مگر اے دوست
جو انتظار تھا صدیوں کا، وہ وبال ہوا

0
5
یہاں ہر دل میں کیا کیا حسرتیں پنہاں نظر آئیں
کبھی آنکھوں سے چھلکیں، تو کبھی حیراں نظر آئیں
کبھی یہ زندگی خوشیوں بھرا اک خواب سی تھی
مگر اب خواب میں بھی کچھ پریشاں نظر آئیں
چمکتے چاند تارے سب فلک کے، میرے آنگن میں
ترے غم کی کہانی کے نگہباں نظر آئیں

0
5
ہر اک دل میں تری صورت نظر آئی
مرے پہلو میں ہر دم تیری خلوت نظر آئی
بڑا چاہا کہ دل سے بھول جاؤں یاد کو تیری
مگر ہر نقش میں تیری ہی صورت نظر آئی
عجب تھا کربِ تنہائی، عجب تھی رنجشِ دوراں
جہاں دیکھی کوئی محفل، تری محفل نظر آئی

0
4
بہت سے زخم دلوں کے ابھی بھرے ہی نہیں
ہزار کوششیں کیں، درد کم ہوا ہی نہیں
عجب سا رنگ تھا اس شامِ غم کی محفل کا
کوئی بھی شخص وہاں کھل کے مسکرا ہی نہیں
یہ کیسی راہ چنی زندگی میں ہم نے، کہ بس
کوئی بھی سنگِ نشاں راہ میں ملا ہی نہیں

0
3
وہ جس نے درد دیا ہے، وہی دوا دے گا
یقینِ دل ہے کہ غم کا وہی صلہ دے گا
یہ دل کا حال عجب ہے، نہ کوئی سنتا ہے
خدا ہی ہے جو اب اس کی کوئی شفا دے گا
ہزاروں خواب ہیں دل میں، مگر یہ ڈرتا ہوں
کوئی تو آئے گا جو ان کو اب جلا دے گا

0
3
جہاں سے کوئی تعلق رہا نہیں اب تو
یہ دل بھی اپنا دلکش رہا نہیں اب تو
وہ جن دنوں میں تمنا تھی وصل کی ہم کو
وہ اضطراب کا عالم رہا نہیں اب تو
عجیب خواب تھا دیکھا، مگر وہ پورا ہو
کوئی بھی خواب مکمل رہا نہیں اب تو

0
4
"یہ دل تو پیار میں رونا سکھا سکا کوئی بھی"
غمِ حیات کو ہنس کر بھلا سکا کوئی بھی
ہزاروں لوگ ملے زندگی کی راہوں میں
مگر وہ درد کا رشتہ بنا سکا کوئی بھی
یہ شاعری کا ہنر بھی عجب ہنر ٹھہرا
جو دل میں آگ لگی تھی، بجھا سکا کوئی بھی

0
4
یہ انتظار کی شب ہے، سحر نہیں آتی
کبھی کبھی تو ہمیں اپنی خبر نہیں آتی
عجیب درد کا رشتہ ہے اس زمانے میں
دعا بھی لب پہ ہو، لیکن اثر نہیں آتی
ہزار رنگ بدلتا ہے یہ فلک پھر بھی
تری نظر کے مقابل نظر نہیں آتی

0
4
عجب سی آگ ہے دل میں لگی ہوئی جو ہے
نہ بجھ رہی ہے، نہ رہتی دبی ہوئی جو ہے
یہ زندگی کا سفر کب تمام ہوگا میرا
قدم قدم پہ مسافت کھڑی ہوئی جو ہے
وفا کی بات نہ کر، اس سے میرا دل ڈرتا
کہ ایک چوٹ پرانی لگی ہوئی جو ہے

0
4
دیارِ دل میں عجب اضطراب رہتا ہے
کوئی تو ہے جو پسِ انتخاب رہتا ہے
خزاں رُتوں کا بھی اپنا ہی ایک قصہ ہے
وگرنہ پھولوں کا کب تک شباب رہتا ہے
عجیب خواب تھا وہ جو سراب کر ڈالا
مری نظر میں ابھی تک وہ خواب رہتا ہے

0
4
یہ بزمِ ناز ہے یا محفلِ بہاراں ہے
جدھر نظر ہو ادھر اک نیا گلستاں ہے
نہ کوئی پاس نہ کوئی شریکِ غم اپنا
جو دل پہ بوجھ ہے وہ میرا اپنا ارماں ہے
وہ چھا گئے ہیں کہ جیسے بہار آئی ہو
ہزار حور و پری ہیں، وہ رشکِ دوراں ہے

0
4
مرے دل میں کوئی ارماں نہیں اب
کسی جانب کوئی درماں نہیں اب
وہ بزمِ ناز اٹھ گئی ہے کب سے
کوئی رونق، کوئی ساماں نہیں اب
جوانی روٹھ کر کے جا چکی ہے
لبوں پر زندگی کا نام نہیں اب

0
4
کہاں اب وہ پرانا یار باقی
نہ اب کوئی رہا غم خوار باقی
نہ دل میں ہے محبت اب کسی کی
نہ وہ پہلی سی کوئی پیار باقی
مقدر نے لٹا دی زندگی یوں
نہ اب کوئی چمن نہ خار باقی

0
6
کہاں اب وہ پرانا یار باقی
نہ کوئی غمگسار و یار باقی
نہ دل میں روشنی باقی کسی سے
نہ کوئی چاند کا مینار باقی
عجب ہیں اس جہاں کے سب ہی قصے
نہ اب وہ انتظارِ یار باقی

0
5
عجب ہے حال اپنا، ہر گھڑی بس یاد کرتے ہیں
محبّت ہو گئی ہم کو، یہ دل فریاد کرتے ہیں
جوانی میں بہت مشکل ہے دل کا حال بتلانا
زباں خاموش رہتی ہے، مگر ارکان کہتے ہیں
"تری چاہت میں ہم نے چھوڑ دی دنیا کی ہر لذت
فقط اب نام تیرا ہی، سحر اور شام لیتے ہیں

0
4
عجب ہے زندگی اپنی، عجب اک طورِ الفت ہے
نہ دل کو چین ملتا ہے، نہ اس کی اب ضرورت ہے"
یہ عشقِ ناتواں میرا، یہ دردِ بے دوا میرا
یہ سب تیری عنایت ہے، یہ تیری اک محبت ہے
تری ہر اک ادا پر دل لٹانے کو یہ جی چاہے
یہی تو زندگی اپنی، یہی اپنی ضرورت ہے

0
4
یہ جو دل میں روشنی سی ہے کوئی آیا ہوا
دل اسی غم میں رہا اک مدتوں گم ہی ہوا
یہ نہیں تھی زندگی اپنی، نہیں حق تھا کوئی
کس نے یہ نام آج میرے نام پر لکھا ہوا
چاندنی راتوں میں اکثر یاد وہ آیا کیے
جیسے کوئی خواب ہو، جیسے کوئی لمحہ ہوا

0
4
کوئی صورت نظر آئی نہ اب تک دل لگانے کی
کہاں سے لاؤں وہ باتیں، وہ رسمیں مسکرانے کی
وفا کے نام پر ہم نے بہت کچھ کھو دیا اپنا
یہ دنیا تھی فقط ہم کو نئے منظر دکھانے کی
چلے تھے ساتھ دینے کو، مگر اب دور ہو جیسے
وہ باتیں سب پرانی تھیں، فقط دل کو لبھانے کی

0
3
جو گُزرا وقت ہے وہ کب مِلے گا؟
چَمن سے پھول کب واپس کِھلے گا؟
زمانہ کیا کرے گا پیار اپنا
زمانہ ہے کہ دِل سے جا مِلے گا
محبت کی گلی میں جو بھی گَردش
کسی سے پھر یہ کیسے بَچ سکے گا؟

0
4
​وہ کون ہے جو مرے دل کو چھُو کے جاتا ہے
یہ خواب میں بھی اکیلا کہاں سلاتا ہے
​وہ کوئی بات مرے سامنے نہ کرتا تھا
مگر نگاہ سے ہر راز وہ بتاتا ہے
​عجب جہان ہے ہر شخص خامشی میں مگر
دھواں تو سب کے ہی زخموں کا اٹھ کے آتا ہے

0
4
مَرے خیال کو تم نے نئی ڈگر بخشی
کبھی نہ لوٹ سکے ایسی رہ گزر بخشی
وہ جانتا ہے مری شاعری کا کیا مقصد
کہ ہر غزل کو فقط تیری ہی نظر بخشی
جو غم تھا دل میں وہ ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے
یہ تیرے پیار نے کیسی مجھے ہنر بخشی

0
4
رہِ اُلفت میں سفر ہے، کوئی منزل تو نہیں
یوں بھٹکنے کا مگر دل کو بھی حاصل تو نہیں
ہم نے مانا کہ خطا وار ہیں، مجرم بھی سہی
پر یہ اندازِ ستم آپ کا عادل تو نہیں
جس کو دیکھو وہی مصروفِ گلہ ہے اپنا
زندگی کوئی مسلسل سی مشاکل تو نہیں

0
4
یہ دل جو درد سے خالی ہوا ہے
کبھی یہ غم سے بھی شاکی ہوا ہے
عجب سی رُت ہے اب کی زندگی کی
نہ کوئی اپنا نہ ساقی ہوا ہے
پھرے ہیں در بہ در ہم جستجو میں
جو دل کا چین تھا، راہی ہوا ہے

0
4
عشق میں ہم نے یہ دنیا کو بھلا رکھا ہے
ایک محشر دلِ ویراں میں بپا رکھا ہے
تجھ سے بچھڑے تو لگا جیسے قیامت آئی
دردِ ہجراں نے ہمیں خوب رلا رکھا ہے
چاند تاروں سے کہا کرتے ہیں تیری باتیں
تیرے قصّے کو زمانے سے چھپا رکھا ہے

0
4
بہاروں کا سماں اب کب دکھے گا
کوئی پھول اس چمن میں کب کھلے گا
یہ دل تنہا رہا ہے ایک مدت
کوئی آ کر اسے اب کب ملے گا
نظر کو جستجو بس اک صنم کی
وہ مہتاب اب نہ دل سے پھر ہٹے گا

0
4
ہمارے دل میں اک حسرت رہے گی
محبت کی ہمیں عادت رہے گی
جوانی تو چلی جائے گی لیکن
تری یادوں کی اک دولت رہے گی
نظر اب غیر کو ہرگز نہ دیکھے
وفا کی دل میں یہ شدت رہے گی

0
4
کسی کا درد دل میں ہے ندیم آج
یہ غم کیا کم ہے اپنے دل کے غم سے
سخن میں ہے جو سوز و ساز پیدا
یہ سب ہے عشق کی اک خاص رم سے
کہاں وہ دورِ مستی اب رہا ہے
گزرتے ہیں شب و روز اب الم سے

0
6
ملا ہے درد اب جو دل کو، شکایت کیوں نہیں کرتے
تم اپنے ہجر کا ہم سے، تقاضا کیوں نہیں کرتے
وفا کا نام سن کر ہم، بہت حیران ہیں لوگو
کہ اس دنیا میں اب کوئی، یہ سودا کیوں نہیں کرتے
خزاں کا دور ہے، گلشن اداس و بے زباں ٹھہرا
کوئی دیوانہ آ کر اب، یہ چرچا کیوں نہیں کرتے

0
3
نہیں ممکن سکوں اب دل میں آئے
کہ زندگی غموں کا ایک سفر ہے
وہ جب آیا تو خوشیاں ساتھ لایا
اب اس کا ذکر ہی شام و سحر ہے
وفا کا نام سن کر دل یہ بولا
یہاں ہر شخص کا اپنا ہنر ہے

0
6
نہ ہو الفت تو جینا بے ہنر ہے
یہی دنیا ہے، اپنا اپنا گھر ہے
غموں کی دھوپ ہے اور سایہ کم ہے
مسافر ہوں، سفر ہی میرا در ہے
وفا کی رسم کو ہم نے نبھایا
مگر دنیا کا دستورِ دگر ہے

0
6
دل میں اک امید کا پھر سے دیا روشن ہوا
جب خیالِ یار آیا، یہ جہاں روشن ہوا
غم کی تاریکی میں ہم نے زندگی گزری مگر
آپ کے آنے سے سارا آشیاں روشن ہوا
اب کوئی شکوہ نہیں ہے زندگی سے اے صنم
آپ کا چہرہ جو دیکھا، آسماں روشن ہوا

0
4
مرا دل ہے غم آشنا یا خدا
یہ کیسی ہے دنیا، یہ ہے ماجرا
کبھی عید ہے یا کبھی ہے خوشی
کبھی دل ہے ویراں، کبھی ہے بسا
تری یاد میں ہم رہے رات بھر
کیا دل نے رونا، کیا ہے گلہ

0
4
پھر وہی دل، پھر وہی غم، پھر وہی افسوس ہے
عشق کا شاید ہمارے سر پہ اب بھی بوجھ ہے
آرزوئیں ہیں مری بکھری ہوئی ہر سمت میں
زندگی اک خواب سی، اور خواب بھی بے ہوش ہے
چاند تاروں سے کہو، اب روشنی کم کر ذرا
ہجر کی شب ہے مری، یہ دل بہت پُر جوش ہے

0
7
دل کے زخموں پر بہا اشکوں کا دریا رات بھر
یادِ ماضی نے جلایا اک دیا سا رات بھر
چاند بھی تھا نیم روشن، خامشی کا راج تھا
کچھ کہے بھی، کچھ چھپائے، دل کہا سا رات بھر
خواب میں بھی تیری خوشبو ساتھ چلتی جا رہی
پھول جیسے بات کرتے ہوں ہوا سا رات بھر

0
6
کبھی دل میں خیالِ یار آئے
تو ہر جانب گل و گلزار آئے
اُسی کے نام سے روشن یہ دنیا
اسی کے دم سے دل کو قرار آئے
نہ پوچھو حالِ دل اے چارہ سازو
کہ جب آئے تو بے اختیار آئے

0
4
یہ دل کی لگی اب کہاں جائے گی
تری یاد ہر سو نظر آئے گی
جوانی کا عالم گزر جائے گا
محبت کا موسم بکھر جائے گی
کہیں دور جب شام ڈھل جائے گی
اداسی مری جاں کو کھا جائے گی

0
4
کسی کو کیا خبر کیا دل میں ہوگا
وفا کا ذکر اب محفل میں ہوگا
وہ آئے یا نہ آئے اپنی مرضی
مرا تو کام بس مشکل میں ہوگا
چلو اب ساتھ چھوڑو تم ہمارا
کہ اب جو کچھ بھی ہے منزل میں ہوگا

0
4
ہوائیں جب چلیں آہیں بھریں گی
یہ دل کی بستیاں کیسے بسیں گی
کوئی بھی خواب اب تکمیل کو کیا
یہی آنکھیں مری یونہی ترسیں گی
وفا کی راہ میں چلنا محال اب
کہ ہر جانب یہ رسمیں ہی گتیں گی

0
4
یہ دل جو تھا کبھی اپنا، وہ اب بیگانہ لگتا ہے
؎ کوئی اپنا نہیں اپنا، ہر اِک انجانا لگتا ہے
؎ محبت میں ہوئے رسوا، مگر شکوہ نہیں کوئی
؎ یہ سودا دل کا اے ساقی، بہت ارزانہ لگتا ہے
؎ ازل سے ہے یہی دستور، اس دنیا کی محفل کا
؎ جو گل کھلتا ہے آخر کار، وہ ویرانہ لگتا ہے

0
2
نہ کوئی یارِ دل افروز ہے اپنا یہاں پر
نہ کوئی محرمِ اسرار ہے اپنا یہاں پر
عجب عالم ہے وحشت کا، عجب دشتِ تنہائی ہے
نہ کوئی ہمدم و غم خوار ہے اپنا یہاں پر
ازل سے ہے مقدر میں ہماری یہ پریشانی
نہ کوئی آرزو بردار ہے اپنا یہاں پر

0
3
یہ دل جب سے لگا اس سے، عجب حالت ہوئی دل کی
نہ خود پر اختیار اب ہے، نہ سُدھ بُدھ ہے مسائل کی
بہاروں میں خزاؤں کا، گزر کیوں کر ہوا آخر
نہ کوئی پھول اب کھلتا، نہ خوشبو ہے شمائل کی
جدھر دیکھیں ادھر غم ہے، جدھر جائیں ادھر ماتم
کسی سے کوئی نسبت ہے، نہ کوئی بات محفل کی

0
4
کوئی منزل نہیں اپنی، کوئی رستہ نہیں اپنا
کِسی جانب نہیں جاتی، نظر رستہ نہیں اپنا
یہ دنیا ایک صحرا ہے، یہاں کوئی نہیں اپنا
جہاں تک جا کے دیکھیں ہم، کوئی اپنا نہیں اپنا
عجب ہے زندگی اپنی، عجب ہیں اس کے افسانے
نہ کوئی پاس ہے اپنے، نہ کوئی آشنا اپنا

0
4
یہ دل کَیْ ہے لَگی یِہ ہی جُنوں ہے یِہ مُحَبَّت ہے
تِرے باعث ہَر اِک مَنظَر، حَسِیں اور با حِمَّت ہے!
مِرے ذکر سے ہی ہر پَل، بَہُت ہی شاد رَہتا ہوں،
کِہ تیری قُربتوں جیسی، عجب اِک خاص نِسبَت ہے!
مِرے وُجود پَہ تیری، نَظَر کا نَقْش گَہرَا ہے،
یِہ تیری چاہتیں دراصل، مِری نیک فِطرَت ہے!

0
4
یہ عشق ہی تو ہے جو رنگِ کائنات میں ہے
یہی وہ راز ہے جو ہر اک حیات میں ہے
کہاں نصیب یہ دوری، کہاں یہ قربتیں تھیں
عجیب کیفیت اک واردات میں ہے
ازل سے تیری طلب میں بھٹک رہا ہے بشر
یہ جستجو تو ازل سے ہی ذات میں ہے

0
3
یہ نور آج پھر ہر سو جہان میں پھیل گیا،
وہ جس کا فکر تھا مشعل، زمان میں پھیل گیا!
سنا رہا ہے زمانہ، یہ کس کا نغمۂ حق؟
ہر ایک قلب کی گہرائیوں میں ریل گیا!
خودی کا درس، عمل کا پیام عام ہوا،
جو خواب ملت کا تھا، گلستان میں پھیل گیا!

0
4
بہار آئی مگر اب پھول کب کِھل کر گئے ہیں
پرانے رنگ ہی پھر آج کیا بدل کر گئے ہیں
کسی سے بھی نہیں کچھ شکوۂ دورِ حیات اب
وہ جب سے یار تنہا راہ میں مِل کر گئے ہیں
ہماری بات ہی کیا، داستاں ہے ہر اُس عاشق کی
جو اپنی جان کی پروا کیے بِن دِل کر گئے ہیں

0
4
پھر وہی پیغامِ نو، عزمِ جواں بھی چاہیے،
خوابِ مغرب سے نکل، اپنا جہاں بھی چاہیے!
آج پھر اقبال کی فکرِ رسا نے یہ کہا،
دل میں جو پنہاں ہے، اس کا ترجماں بھی چاہیے!
سر جھکانے سے نہ ہوگا کام، اے بندۂ خدا،
اِس خودی میں ذوقِ تسلیم و اماں بھی چاہیے!

0
6
یہ فیض آج بھی جاری ہے اس سخن ور کا،
زباں پہ نام ہے ہر ایک کے علامہ کا۔
وہ فکر جس نے جگایا تھا خواب غفلت سے،
اسی سے تابندہ ہے اب بھی چراغ صحرا کا۔
نہیں ہے اس کے تخیل کی کوئی حد باقی،
کہ جس نے کھول دیا رازِ حق و دنیا کا۔

0
3
دل وہ افسردہ چراغِ سرِ منزل ہی رہا
شہر میں درد کا عالم یونہی بس چلتا رہا
فکرِ ہستی میں کوئی عقدہ نہ وا ہم سے ہوا
ہم تو سمجھے تھے کہ جینے کا قرینہ ہی رہا
عشق کی زد پہ رہے، عقل سے شکوہ نہ گلہ
یہ جنوں، حد سے سوا، چلتا رہا چلتا رہا

0
5
نہ کوئی خواب ہے اب اور نہ کوئی تقدیر باقی،
فقط اک دل ہے سینے میں، وہی تصویر باقی
ہزاروں آرزوئیں دل میں پنہاں ہو کر رہیں اب،
مگر اک حسرتِ دیدار ہے، تدبیر باقی
عجب سودا ہے الفت کا، عجب دیوانگی ہے،
کہ ہر شے لٹ گئی، پر لذتِ زنجیر باقی

0
6
کبھی تو آؤ کہ دل کا قرار ہو جائے
تمہاری دید ہی بس اختیار ہو جائے
یہ دل ہے یا کوئی ویران سی حویلی ہے
جہاں پہ آ کے ہر اک غم سوار ہو جائے
خرد کو چھوڑ کے دیوانگی میں جینا سیکھ
یہی وہ راہ ہے جس سے کہ پار ہو جائے

0
4
نہ دل میں تابِ سخن ہے، نہ جاں میں تاب نہیں
عجب فریبِ محبت، یہ خواب ہے کہ نہیں؟
وفا کی رسم چلی ہے نہ دہر میں شاید
کوئی بھی عہد کا پابند اب جناب نہیں
ازل سے پیاس ہماری بجھی نہیں ساقی
یہ زندگی تو فقط ایک سراب ہے کہ نہیں؟

0
4
کوئی بھی خواب کا اب دل میں گھر نہیں ہوتا
کسی بھی درد کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا
عجب یہ گردشِ دوراں ہے، کیا کہیں اس کو
کوئی بھی حال یہاں معتبر نہیں ہوتا
خزاں نصیب ہوئے گل، چمن اجڑ بھی گئے
مگر بہار کا اب کچھ سفر نہیں ہوتا

0
3
کوئی پیام صبا سے ہمیں نہیں آتا
دلِ حزیں کو سکوں اب کہیں نہیں آتا
ترا خیال بھی جب دل میں آ کے بیٹھتا ہے
تو ایک لمحہ بھی ہم کو یقیں نہیں آتا
وفا کا نام نہ لے، اے محبتوں کے خدا
یہاں تو درد کا درماں کہیں نہیں آتا

0
5
کبھی جو یاد میں آیا وہ چاند سا لگتا
مگر وصال کا قصّہ فسانہ سا لگتا
خزاں کی دھوپ میں بیٹھا تھا میں خیالوں میں
وہ آ کے بولا کہ موسم بہانہ سا لگتا
کسی کے ہجر میں دن بھی سیاہ ہوتے ہیں
کسی کے ساتھ تو ہر غم خزانہ سا لگتا

0
6
مقامِ آگہی پر آ، نہیں یہ مرثیہ تجھ سے
کہیں گے لوگ دنیا میں، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ہنر اپنا جگا دل میں، نہ مانگ بھیک منزل کی
سفر ہے تیری منزل کا، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
خودی کو کر بلند اتنا، کہ تیری ذات ظاہر ہو
جہانِ نو کا خالق ہے، نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

0
16
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
یہ دل اگر اسیرِ وفا ہے تو اے صنم
ہر قید، ہر اسیر کا سودا بھی چھوڑ دے
گر تجھ کو اپنا آپ ہی پیارا نہیں رہا
جینے کی آرزو، یہ تقاضا بھی چھوڑ دے

0
4
کرم کی نظر، اک ذرا چاہتا ہوں
بہانہ کوئی، باخدا چاہتا ہوں
نہیں دل میں وسعت ترے غم کے آگے
وہی آرزو، اِک خلا چاہتا ہوں
مجھے دے نہ تسکینِ ہجراں کا مرہم
میں زخموں سے اب آشنا چاہتا ہوں

0
5
دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکرِ حبیبِ پاک بھلایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سنایا نہ جائے گا
وہ خود ہی جان لیں گے، جتایا نہ جائے گا
جنت بھی ہو نصیب مگر اس کے بغیر
کوثر کا جام یوں ہی اٹھایا نہ جائے گا

0
5
نہ اب جفا ہو کسی سے، نہ اب وفا ہوگی
یہ زندگی تو بس اک رائیگاں سزا ہوگی
جو آج ہنس رہے ہیں میری بے بسی پہ یہاں
یہی ہجوم کل میرا نوحہ خواں ہوگی
فلک سے ٹوٹ کے گرتے ستاروں کی صورت
ہمارے دل کی کہانی بھی جاوداں ہوگی

0
8
یہ دل اپنا جلا بیٹھا، تری محفل میں آ کر اب،
کوئی پروا نہیں مجھ کو، کہ دنیا ہے کدھر اب۔
وہی دیوانگی اپنی، وہی وحشت، وہی عالم،
وہی دل اب ہے ناداں، سو در پہ جا کے بیٹھا ہے
تری آنکھوں کا جادو ہے، ترا اندازِ داغؔ اب ہے،
اسی میں فیضؔ کا جلوہ، اسی میں ہے ہنر اب۔

0
7
جنوں کی حکایت عجب داستاں ہے،
نہ دل کو سکوں اب، نہ کوئی اماں ہے۔
وہی چشمِ نم، دل وہی بے قرار اب،
محبت کی صورت وہی درمیاں ہے۔
تری چشمِ مستی، ترا ناز داغؔ سا،
مگر اس میں اقبالؔ کا بھی نشاں ہے۔

0
6
ازل سے رشتۂ جاں ہے، کسی کا دلربا ہونا،
یہی تو حاصلِ غم ہے، یہی درد آشنا ہونا۔
نہ پوچھو وسعتِ دل کی، کہ یہ صحرا سے بھی بڑھ کر،
عجب اک بیدلی ہے اب، عجب خود سے جدا ہونا۔
وہ آنکھوں کی شرارت، وہ نگاہوں کا بدل جانا،
کوئی سیکھے تو اس سے اب، ہنر عشوہ نما ہونا۔

0
4
عشق میں تیری ندیمؔ اب، یہ دل اپنا گنوا بیٹھا،
نہ کوئی ہوش ہے باقی، نہ کوئی آسرا بیٹھا۔
تیرے کوچے میں جو آیا، تو یہ دنیا بھلا ڈالی،
تیرے قدموں میں ہی آ کر، دلِ مضطر سجا بیٹھا۔
نہ مِلی چین کی صورت، نہ کوئی خوابِ راحت اب،
تری الفت کا یہ سودا، مرے دل کو دبا بیٹھا۔

0
3
یہ دل اپنا جلا بیٹھے، کسی ظالم کے دھوکے میں،
بڑی حسرت سے ہم آئے، اسی دنیا کے میلے میں۔
نہ پوچھو حال اے ہمدم، کہ بس جینے کی حسرت ہے،
جنازہ دل کا نکلا ہے، تری زلفوں کے سائے میں۔
عجب آشوب برپا ہے، تری الفت کے ماروں میں،
نہ کوئی چین پہلو میں، نہ کوئی دل ٹھکانے میں۔

0
5
الٰہی مرے دل میں کیسی طلب ہے،
نہاں اس میں کیا کوئی رازِ عجب ہے؟
یہی طرزِ غالبؔ، یہی شانِ میرؔ ہے،
یہی عشق والوں کا روز و شب ہے۔
تری شوخیٔ چشم و اندازِ داغؔ ہے،
مری شاعری کا یہی اب سبب ہے۔

0
5
یہ دل ہے مبتلائے غم، ازل سے اس خرابے میں،
کہ جیسے کوئی شمعِ جاں، سلگتی ہو سرابے میں۔
ہر اک مشکل ہوئی آساں، تری الفت کے پردے میں،
کوئی سمجھے تو یہ نکتہ، چھپا ہے اس حجابے میں۔
وہ آنکھوں کا اشارہ، وہ تبسم، وہ ادا کیسی،
کہ جیسے بجلیاں کوندیں، کسی کے چشم و خوابے میں۔

0
6
سفر میں منزلیں، کارواں اور بھی ہیں
مقام اور بھی ہیں، آشیاں اور بھی ہیں
یہیں پہ ختم نہیں جستجو کی راہِ حیات
فضا میں وسعتیں، آسماں اور بھی ہیں
نہ ہار ہمت و جاں، اے اسیرِ دامِ یقیں
کہ بے خودی کے نئے امتحاں اور بھی ہیں

0
4
ازل سے رشتۂ دل ہے اُسی جانِ جہاں کے ساتھ
کہ ہم نے عہدِ وفا باندھا ہے نام و نشاں کے ساتھ
جنوں میں ہوش کا عالم، خرد میں بے خودی چھائی
عجب کیفیت طاری ہوئی ہے امتحاں کے ساتھ
ترے بغیر بہاریں بھی بے رنگ و بے کیف ہیں
خزاں کا راج ہے اب دل کے اس گلستاں کے ساتھ

0
4
کیا خبر تھی کہ یہ دن رات بھی آ جائیں گے
دل میں الفت کے جذبات بھی آ جائیں گے
دل یہ کہتا ہے ملاقات رہے گی قائم
پر یہ ڈر ہے کہ لمحات بھی آ جائیں گے
ہم نے سوچا تھا فقط آپ ہی ہوں گے دل میں
کیا خبر تھی کہ خیالات بھی آ جائیں گے

0
5
کیا کہوں حالِ دلِ زار، ستم گر تجھ سے
ہو گئی زندگی بیزار، ستم گر تجھ سے
تیرے کوچے میں جو گزرا، سو گزرا، لیکن
اب بھی دل ہے گرفتار، ستم گر تجھ سے
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، یہ ستم ہے کیسا
ہم تو بیٹھے تھے پر امید، ستم گر تجھ سے

0
4
زمانہ چھین نہ پائے جو دل کا سودا ہے
یہی جنوں ہے ہمارا، یہی ارادہ ہے
بہت قریب سے دیکھا ہے گردشِ ہستی
یہ چار دن کا تماشا، یہ سب کشادہ ہے
تری گلی سے گزرتے ہوئے خیال آیا
کہ آج بھی کوئی عاشق یہاں زیادہ ہے

0
3
قَلْبِي يَبْكِي دَمَاً لِفِرَاقِكَ يَا نَدِيمِي۔
(میرا دل تمہاری جدائی میں خون روتا ہے، اے میرے ندیم۔)
أَيْنَ الْحَبِيبُ الَّذِي كَانَ يُؤْنِسُنِي؟
(کہاں ہے وہ محبوب جو میرا دل بہلاتا تھا؟)
النُّجُومُ فِي السَّمَاءِ تَشْهَدُ عَلَى عِشْقِي۔
(آسمان کے تارے میرے عشق کی گواہی دیتے ہیں۔)

0
5
کوئی پیام نہ آیا، یہ کیا گلہ ہے ہمیں
کہ دل کا حال بتانا بھی اب سزا ہے ہمیں
نہ کوئی رنگ رہا اب، نہ کوئی بو باقی
فقط جنوں ہے میسر، یہی دوا ہے ہمیں
جو دل پہ نقش ہوئے زخم، وہ مٹیں تو کیسے
یہی ستم ہے کہ یہ داغ بھی بھلا ہے ہمیں

0
12
بہار آمد و دل را بہار دیگر کو؟
کہ در فراقِ تو صبر و قرار دیگر کو؟
غمِ تو کشت مرا، لیک حسرتم این است
بہ غیر یار، ہمیں غمگسار دیگر کو؟
ز دستِ رفتہ جوانی، چہ سود ایں دنیا
چو رفت عمرِ عزیز، اعتبار دیگر کو؟

0
4
یہی جنوں ہے کہ دل پھر شکار میں آیا
نظر جھکی سی رہی اور وہ کنار میں آیا
بہار آئی چمن میں، مگر وہ رنگ نہیں
کہ جیسے ذکرِ صبا اب غبار میں آیا
وہی وفا کی تمنا، وہی ہے طرزِ جنوں
کہ دل کا حال وہی کاروبار میں آیا

0
5
بیا کہ دردِ دلم را دوا نخواہد بود
بہ غیر وصلِ تو ما را شفا نخواہد بود
مرا ز کوی تو رفتن بہ غیرِ مرگ نباشد
کہ دل جدا ز رخِ تو، جدا نخواہد بود
اگر بہ بزمِ وفا، نامِ ما رقم نشود
شرابِ بادۂ ما را بہا نخواہد بود

0
4
عجب ہے گردشِ تقدیر، اب ٹھکانہ کوئی
نہ آشنا کوئی اپنا، نہ ہم نوا کوئی
یہ دل وہ گھر ہے کہ جس میں کبھی سکوں نہ ملا
مگر رہے گا یہاں عمر بھر دوانہ کوئی
جو دل پہ نقش ہوئے زخم، یار کے تھے ندیمؔ
لگا سکے نہ محبت کا اب فسانہ کوئی

0
5
جو دل پہ نقش ہوئے، وہ مٹیں تو کیسے مٹیں
یہ داغ آج بھی شامل مرے نگار میں ہے
عجیب رنگ ہے محفل کا، سب خموش مگر
ہر ایک بات جو پنہاں ہے، آشکار میں ہے
کبھی تو عکس پڑے گا تری نظر کا ادھر
یہ انتظار ازل سے اسی بہار میں ہے

0
5
ہزار حیلہ کیا، پر وہ بے وفا نہ ہُوا
کہ دل کو اپنے کسی غم سے آشنا نہ ہُوا
بہت سے داغ تھے پہلو میں، دل جلا نہ سکا
یہ عشق بھی مرے حق میں کوئی دوا نہ ہُوا
جو بات لب پہ نہ آئی، وہ دل میں رہ گئی آج
کچھ ایسا ضبط کہ محفل میں غلغلا نہ ہُوا

0
4
جو درد دل میں بسا ہے، کسی دوا سے نہ جائے
یہ غم تو اب مری جاں سے بھی آشنا نہ رہے
جو زخم یار نے بخشے، وہ دل سے کیسے مٹیں
بہار آئے چمن میں، مگر ہوا نہ رہے
عجیب عالمِ الفت ہے، دل یہ کہتا ہے
وفا کا ذکر رہے، پر کوئی وفا نہ رہے

0
5
ہزار شکوہِ ستم، نازِ بے مثال سہی
مگر یہ دل تو ترا آج بھی بحال سہی
عجب جنوں ہے کہ پہروں رہے خموش مگر
تری گلی سے گزرنا بھی اک وبال سہی
یہاں کہاں وہ رعایت کہ بات دل کی کہوں
جو حال دل کا ہے اپنا وہی احوال سہی

0
4
جس جا ترا نقشِ پا نظر آئے، بَھلا لگے
سجدہ کریں گے ہم تو، ہمیں کعبہ سا لگے
یوں دل نے اپنے غم کو سنبھالا ہے اب کے بار
جیسے کوئی مریض کہ عادت دوا لگے
اُس چشمِ فتنہ گر کی مجھے کیا خبر بھلا
جب دیکھتا ہوں اُس کو، نیا آشنا لگے

0
4
پھر وہی دل، وہی تمنّا ہے
کیا خبر کتنی عمر گنوانا ہے
یارِ دیریں کی بزم ہے سونی
جس جگہ آج ایک افسانہ ہے
لے گئے چھین کر وہ ہوش و حواس
اب فقط دل میں ایک ویرانہ ہے

0
4
کعبے سے کچھ غرض ہے نہ بُت خانے سے کام
ہم تو بیٹھے ہیں لگائے درِ جاناں پہ شام
رندِ مشرب ہوں، نہیں شیخ کا قائل ہرگز
ساقیا! گردش میں لا اب تُو وہ بادہ، وہ جام
دل بھی اب وہ نہیں، وہ درد و الم بھی نہ رہا
کیا کریں ذکرِ فغاں، کیا لیں اب اس کا نام

0
8
کبھی یوں بھی تو ہو، وہ روبرو آئے
زباں خاموش ہو اور گفتگو آئے
ہزاروں خواہشیں دل میں مچلتی ہیں
کوئی ان کو سنے اور آرزو آئے
عجب یہ گردشِ دوراں ہے ساقی
نہ منزل کا پتا ہو، نہ جستجو آئے

0
4
جو دل میں مرے گھر بنا کر گیا ہے
وہ جاتے ہوئے دل جلا کر گیا ہے
کبھی خواب میں اس کو دیکھا نہیں تھا
مگر نیند کو کیوں اڑا کر گیا ہے؟
کوئی بھی نہیں اس جہاں میں ہمارا
یہ احساس دل میں جگا کر گیا ہے

0
5
عجب ہی بات ہے، کیا دل لگی سی چل رہی ہے
کہ ہر محفل میں جیسے اک کمی سی چل رہی ہے
کبھی وہ چاند تھا، میری نگاہوں کا ستارہ
مگر اب آسماں پر تیرگی سی چل رہی ہے
کوئی دیکھے تو دل کے زخم ہیں تازہ ابھی تک
حیاتِ درد کی یوں زندگی سی چل رہی ہے

0
3
کوئی ایسا بھی رستہ ہو جو میری سمت جاتا ہو
کوئی تو ہاتھ ہو جو ہاتھ میرا تھام پاتا ہو
متاعِ دل لٹا کر بھی نہ حاصل ہو سکا کچھ بھی
عجب سودا ہے یہ جس میں کوئی اپنا گنواتا ہو
یہی دنیا ہے، اس میں ہر قدم پر امتحاں ہوں گے
وہی جیتا ہے جو ہر گام پر خود کو آزماتا ہو

0
5
یہی ہے زندگی اپنی، یہی ہے دل فگار اپنا
نہ جانے کب تلک ہوگا یہ رونا زار زار اپنا
یہی ہے رنج و غم کا گھر، یہی ہے خار زار اپنا
کہاں ہے فصلِ گل اب کے، کہاں ہے اب بہار اپنا
اِدھر اُدھر بھٹکتے ہیں، نہیں کوئی دیار اپنا
فضا میں اڑ رہا کب سے، فقط اپنا غبار اپنا

0
6
محبت میں جنوں ہو گا، یہیں دل کو سکوں ہو گا
میں جب تک ساتھ چلوں گا، محبت کا فزوں ہو گا
یہ دنیا ایک دھوکا ہے، نہ اس پے اعتبار آئے
جو حالِ دل سنائے گا، اسی کو درد دوں گا
یہاں ہر ایک مضطر ہے، ہر اک آنکھ آج پر نم ہے
جو سمجھے اس حقیقت کو، وہی دلدار ہو گا

0
4
عجب سی زندگی اپنی، عجب یہ ماجرا دیکھا
نہ دل کو چین مل پایا، نہ کوئی آشنا دیکھا
مقامِ منزلیں کب ہیں، سفر ہے زندگی اپنی
کوئی ٹھہرا نہیں اب تک، نہ کوئی انتہا دیکھا
خزاں چھائی گلستاں پر، نہ کوئی پھول کھل پایا
جوانی کا سماں گزرا، نہ رنگِ دل کشا دیکھا

0
4
یہ دل بے چین ہے شاید محبت ہو گئی اس کو
یہ کس کا نام لیتا ہے اکیلا ہی ندیم اب تو
بڑی مشکل میں ہے جانِ حزیں اب کیا کیا جائے
کوئی صورت نہیں ہے دردِ دل کی اب ندیم اب تو
یہاں پر کون سنتا ہے فغاں اور آہیں اور گریہ
کسے دکھ درد سنائیں ہم، کسے ڈھونڈیں ندیم اب تو

0
5
نہ دل اپنا رہا اپنا، نہ اب اپنی جوانی ہے
فقط تنہائی کا عالم، فقط دل کی کہانی ہے
عجب ہے گردشِ دوراں، عجب یہ زندگانی ہے
کہاں وہ یار کی صحبت، کہاں یہ بے نشانی ہے
متاعِ دل لٹا بیٹھے، مگر اس کو خبر کب ہے
مری آنکھوں میں جو چھلکا، وہی اشکِ روانی ہے

0
7
غمِ حیات کو دل سے نکال کر دیکھو
غمِ فراق میں اپنا کمال کر دیکھو
وہ اک نظر میں اگر دل کو بے قرار کرے
تو اس کے عشق میں اپنا یہ حال کر دیکھو
یہی سکون ہے اور دل کی آرزو بھی یہی
کسی کے ہجر کو اپنا وصال کر دیکھو

0
3
درود اُن پر کہ جن کی ذات یکتا،
خدا کا نور جن کے لب پہ آیا،
کرم اُن کا رہا ہر دم نمایاں،
گدا کو جن نے رتبہ شہ کا بخشا
یقیں کامل کی منزل، بس وہی ہیں،
ہدایت کا سہارا، بس وہی ہیں،

0
4
جہل کی تاریکیوں میں روشنی ہے علم کی
زندگی کی ہر کڑی میں آگہی ہے علم کی
یہ وہ دولت ہے جو ہر دم بڑھتی جائے بانٹنے سے
کیسے ممکن ہے کمی ہو، بے کمی ہے علم کی
دیکھ لو تاریخ کو، اس نے یہی ثابت کیا
قوم کی عظمت، ترقی اور سمی ہے علم کی

0
6
جو ملی ہے زندگی اس کا صلہ پایا گیا
دیکھ کر رنگِ جہاں لطف و مزہ پایا گیا
آج دل شاداں ہوا، روح بھی مسرور ہے
جیسے گم گشتہ کوئی اپنا پتا پایا گیا
ہر طرف پھیلی کرن، روشنی ہی روشنی
غم کے بادل چھٹ گئے، عزمِ بقا پایا گیا

0
10
غلطی سے بھی کوئی فیصلہ بجا نہ ہوا
یہی تو دکھ ہے کہ اپنا کوئی گلہ نہ ہوا
عجیب بھول تھی، خود کو سمجھ لیا سب کچھ
مگر حیات کا ہم سے حق ادا نہ ہوا
ہم اس فریب میں جی اٹھے کہ منزل قریب
کھلا یہ تب کہ جب کوئی نقشِ پا نہ ہوا

0
4
عجب خوش فہمی میں ہم جی رہے ہیں
ستم کو لطفِ کرم جی رہے ہیں
نہیں خبر کہ یہ دنیا ہے ایک دھوکا
فریبِ خواب میں ہر دم بہ دم جی رہے ہیں
سمجھ لیا ہے جسے یار اپنا ہم نے
وہ دشمنی میں بہت محترم جی رہے ہیں

0
4
ہوائے نفس میں کیسی عجب نادانی ہے
کہیں فریب، کہیں خواب کی کہانی ہے
یہ دل لگی نہیں آسان، اے مری جاں، سن
یہ عشق آگ کا دریا ہے، اور پانی ہے
میں ڈھونڈتا ہوں جنہیں، وہ مری خبر نہ لیں
یہ میری چاہ، مری جستجو، پرانی ہے

0
4
سکونِ دل ملا ہے جب سے یار آیا
چمن میں جیسے پھر سے نو بہار آیا
نہ کوئی غم رہا ہے اب نہ کوئی رنج
ہر اک پہلو میں ہی اب تو قرار آیا
بڑی مشکل سے پایا ہے یہ وقتِ خاص
ہزاروں جستجو کے بعد یہ بار آیا

0
4
فقط دل کی لگی کا تھا سہارا میرے دلبر سے
مگر اب زندگی ہے آشکارا میرے دلبر سے
مجھے ہر پل یہ ڈر رہتا، کہیں کوئی نہ سن لے بات
چھپا رکھا ہے میں نے سب اشارا میرے دلبر سے
یہی کافی نہیں ہے کیا کہ وہ میرے ہوئے آخر
یہی کافی نہیں ہے کیا نظارا میرے دلبر سے

0
5
درود ان پر جو ہر دم جگمگائے
خدا کا نور جن کے لب پہ آئے
کرم ان کا ہمیشہ عام دیکھا
گدا کو بھی کیا جن نے شہنشاہ
یقیں کامل کی منزل بس وہی ہے
ہدایت کا سہارا بس وہی ہے

0
5
کوئی بھی دل دُکھائے گر کسی کا
یہی سمجھو کہ وہ پتھر دِلی ہے
مروت جس کے دل میں پیدا ہو جائے
وہی انسان اچھا آدمی ہے
نہ چھوڑو ساتھ نیکی کا کبھی تم
یہی تو زندگی کی روشنی ہے

0
5
کبھی تنہائیوں میں آ کے ملنا اچھا لگتا ہے
وفا کا ذکر کرنا اور سننا اچھا لگتا ہے
ہزاروں غم سہی، پر دل کو پھر بھی اے ساقی
لبوں پہ نام تیرا گنگنانا اچھا لگتا ہے
یہ دنیا رسم و راہِ بے وفائی کی ہے لیکن
کسی کا منتظر رہنا، بلانا اچھا لگتا ہے

0
6
نہ کوئی آس باقی ہے نہ اب کوئی سہارا ہے
فقط اس دل میں تیرا نام ہی پیارے ہمارا ہے
عجب ہے حال اپنا بھی ترے کوچے میں دیوانو
کہ جیسے موج کو ساحل کا بس اک اِک اشارا ہے
چلے جب سے وہ محفل سے ہوئی ویران ہر شے ہے
فضا بھی سوگ میں ڈوبی، فلک بھی اک نظارا ہے

0
7
نئی تعمیر کرنا چاہتا ہوں
یہ دنیا ہیر کرنا چاہتا ہوں
وہی تسخیر کرنا چاہتا ہوں
وہی تنویر کرنا چاہتا ہوں
مرے دل کا وہی سب راز سُن لو
وہ سب تقریر کرنا چاہتا ہوں

0
4
کسی کی یاد جو میری پُکار سے باہر
وُہی اک سایہ جو اپنے حصار سے باہر
اُسی کے نام پہ جینے کی کَون سی ضد ہے
جو میری دسترس، اور اِختیار سے باہر
میں اُس کی دُھن میں کسی اور سمت چل دی تھی
وہ اپنے گھر کے کسی شہریار سے باہر

0
5
یہ کس رستے پہ چلتا جا رہا ہوں!
نہ منزل ہے، نہ گھر کا جانتا ہوں!
کوئی آہٹ نہیں ہے اب یہاں پر!
کہاں اپنے، کہاں پر میں کھڑا ہوں!
میرے دل کا سکوں برباد کیوں ہے!
یہ کس دنیا کے ہنگامے میں پڑا ہوں!

0
5
کیا وہ وعدہ تھا جسے آج نبھانا ہے ہمیں!
تیری یادوں میں ہی اب اور نہ بہکنا ہے ہمیں!
شہرِ دل میں تو فقط اک تیری یادوں کی گلی!
اب تو ہر گام پہ ٹھوکر ہی کو کھانا ہے ہمیں!
یاد اس کی بھی تو آتی ہے، مگر ہنستے ہوئے!
ایک یہی دکھ ہے جسے ہنس کے نگلنا ہے ہمیں!

0
4
مرے دل کو جو غم ہے، وہ نیا نہیں ہے
کہ یہ تو آپ کے جیسا نہیں ہے
وہ جس کو دیکھنے کو آنکھ ترسی
پرندہ شاخ پر بیٹھا نہیں ہے
جو تم کو آج کل اچھا لگا ہے
مرے خوابوں میں تو ایسا نہیں ہے

0
5
اپنی قسمت پہ بےجا گلہ مت کرو
حسرتوں کو کبھی بد دعا مت کرو
روشنی کے دیوں کو بجھا مت کرو
غم کا جلتا ہوا سلسلہ مت کرو
دل کے زخمی پرندوں کو پرواز دو
ان کے پر کاٹ کر پھر جفا مت کرو

0
6
ہجومِ شہر سے اک دشت سا بنا ہوا ہے
یہ ہر شخص یہاں جیسے تنہا سا کھڑا ہوا ہے
کھویا ہوا سا ہے وہ، اپنی جستجو میں شاید
جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے پڑا ہوا ہے
ہر ہاتھ میں ہے ایک بے جان سی مشین، مگر
سب کے دلوں میں سنسان سا اک خلا ہوا ہے

0
7
کیا خوب منظروں میں، کیا بستیوں میں دیکھا
ہر سانس کے تعلق کو، ان بندشوں میں دیکھا
تجھ کو کہاں تلاشیں، کس کو پکار بیٹھیں
تجھے تو ہر لمحہ، ہر اِن قدموں میں دیکھا
ظاہر تو وہ نہیں ہے، مخفی بھی تو نہیں ہے
جب آنکھ بند کی، تو ان خوابوں میں دیکھا

0
4
اِک نظر ہم کو اِشارے سے بَلا لوگے یہ آج
ہوگا کیا، دل کو ہمارے، جو دکھا دوگے یہ آج
تم نے مانی ہے نہ مانے گی کبھی کوئی بات
اپنی اِس شان سے اب، ہم کو رُلا دوگے یہ آج
چشمِ پُر ناز سے کچھ اور ہی مطلب نکلے
اور ہر اک بات میں، اک اور اَدا ہو گی یہ آج

0
5
نہ سکوں ہے دلِ ویراں کو اب، نہ قرار ہے
ہے مری روح کا ہر ذرہ فقط ایک غبار ہے
کچھ بھی ہوتا نہیں دراصل مرے پاس نیا
وہی تنہائی، وہی رنج، وہی فصلِ بہار ہے
ایک دیوار ہے حائل مری خواہش اور مجھ میں
اور اک فاصلہ ہے جو نہیں ہوتا کبھی پار ہے

0
5
اب جس کو جو کہنا ہے، وہ کہہ کر ہی رہے گا
جب شہر میں سچ کا کوئی پردہ ہی نہ ملے
یہ اہلِ وفا سب ہیں، مگر ایک حقیقت
اُن اہلِ محبت کی طرف دیکھنا ہی نہ ملے
ہم نے تو بہت سوچ سمجھ کر کہا لیکن
اب ہم سے کوئی پوچھنے والا ہی نہ ملے

0
8
وہی ہے دل جو مگر اب ٹھہرتا نہیں ہے
عجیب رستہ ہے کوئی گزرتا نہیں ہے
تمام عمر اسی راہ میں رہی ہے مری
جہاں پہ سایۂ دیوار ملتا نہیں ہے
جو تجھ سے بچھڑیں تو یہ بے بسی بھی دیکھیں گے
کہ کوئی دوسرا اس طور برتا نہیں ہے

0
5
کوئی بھی خواب میرے دل سے اب ملتا نہیں ہے
عجب سی خامشی ہے، کوئی کچھ کہتا نہیں ہے
اس قدر ہے فاصلہ اب میرے اور اس کے درمیان
کہ یہ احساسِ دوری اب کوئی کھلتا نہیں ہے
وہی راتیں ہیں، وہی صبح ہے، وہی دن بھی ہیں
مگر کیا کیجیے، ہر لمحہ ہی بیتتا نہیں ہے

0
5
کچھ دن سے اب لبوں پہ کوئی بات بھی نہیں
جیسے کہ خامشی ہے، مناجات بھی نہیں
جو درد ہے تو اس کی شکایت نہیں سہی
یہ غم کوئی خوشی کے لمحات بھی نہیں
کیا اعتبار زلفِ پریشاں پہ کیجیے
جب ایک آنسوؤں کی برسات بھی نہیں

0
5
کبھی فرشتہ، کبھی شیطان ہے آدمی
کیا کیا نہ اس کے اندر نہاں ہے آدمی
کرتا ہے خود ہی پیار، خود ہی ہے سراب میں
اپنے ہی جال کا وہ گمان ہے آدمی
اک بات پر وفا، تو اک بات پر جفا
کتنے بدلتا رنگِ بیاں ہے آدمی

0
6
جو خواب تھا وہ نیند میں ہی فوت ہو گیا
جو زندگی تھی وہ تری سوغات ہو گئی
اب وقت اور تم سے گِلہ کیا کریں گے ہم
بس اس لیے کہ ہم کو بھی مات ہو گئی
ہم کو پتا ہی نہ چلا اور یہ سفر تمام
اک عمر بس تمہاری حکایات ہو گئی

0
5
وہی ہے دل میں مگر جب ملاقات کیجیے
آئے نہ لب پہ کوئی بھی بات، کیا کیجیے
یہ عمر بھر کی تھکن، یہ اداسیوں کا سفر
جب ملیں سکون کی اک رات، کیا کیجیے
تمہارے شہر کے ہر در پہ جستجو کے سوا
نہ ہاتھ آئے کوئی سوغات، کیا کیجیے

0
6
ہمیں کچھ دیر تو پلکوں پہ تم ٹھہرا ہی لیتے ہو
کہ جب جانا ہے تو رو کر ہمیں رخصت ہی دیتے ہو
نہ وعدے ہیں، نہ قسمیں ہیں، نہ باقی جستجو کوئی
فقط لب پر مرے نامِ محبت ہی دیتے ہو
یہ کیسی بے رخی ہے دل میں اب تم سوچتے کیا ہو؟
مرے ہو کر بھی اب تم اجنبی صورت ہی دیتے ہو

0
7
کسی کی جستجو میں خاک ہونا چاہیے
یقیں کو راہِ منزل کا نشاں ہونا چاہیے
نہیں ہے زندگی کا مقصد فقط آسودگی
خود اپنا خوں، خود ہی رنگِ خزاں ہونا چاہیے
اسیرِ عقل و خرد کا جو قائل ہو، وہ کیا جانے
جنوں میں کوئی تو اپنا بھی جہاں ہونا چاہیے

0
5
کسی پہ دل کا بھروسا کیا کریں گے ابھی؟
جو سچے عشق کو جھوٹا کہا کریں گے ابھی؟
یہ زخمِ ہجر تو ہر دن کا ہے نیا صدمہ
یہ زندگی ہے، سو رو کر جیا کریں گے ابھی
کچھ ایسے وعدے ہیں جو اس نے کر لیے ہم سے
جو بھول جانے میں بھی یاد آ کریں گے ابھی

0
5
ستم کی یہ بھی حد ہے، چھوڑا آشیانہ، ہائے دل
کچھ نہ سمجھا تیرے فریبِ زمانہ، ہائے دل
یہ خودی کی بے بسی، یہ بے وفائی کا زوال
تیری فرقت میں ہے یوں نالہ و بہانہ، ہائے دل
جس کو سمجھا تھا ہم نے اپنے زخموں کا مسیحا
اُسی کا وار ہے سب سے غائبانہ، ہائے دل

0
6
مجھ پہ ہر شے کی ہے ویرانی کا غم، ہائے ہے
آج کیوں دل پر تری یادوں کا ماتم، ہائے ہے
ایک تنہائی ہے اور اک بے کسی کا درد ہے
یہ تو دوزخ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم، ہائے ہے
بزمِ ہستی میں کوئی ہمدم نہیں، غم خوار نہیں
صرف اپنے آپ سے ہی اپنا باہم، ہائے ہے

0
5
وفا کے رنگ میں جل گئے ہیں دل کے چراغ ہم نے
یہی عشق کا معیار ہے، یہی راہ میں ہم نے
جفا کے بعد بھی سر نہ جھکایا کبھی ہم نے
یہی صبر کی بات ہے، یہی قدم میں ہم نے
محبت کی شمع کو جلا کے رکھا ہر دم ہم نے
یہی دل کی روشنی ہے، یہی دَم میں ہم نے

0
8
محبت ایک جذبہ ہے، عطائے کبریا ہے
یہی دل کا تقاضا، یہی دل کی ادا ہے
وفا کے بام پر جلتی رہِ الفت کی شمع
یہی خوابِ ازل ہے، یہی خوابِ بقا ہے
جفا کے بعد بھی ہم نے دُعا ہی کی ہمیشہ
یہی رنگِ محبت، یہی لطفِ وفا ہے

0
7
زندگی اک سفر ہے، راہوں کی روشنی سے بنا
ہر خوشی ہے چھوٹی، ہر غم بھی سبق سے بنا
وقت کی روانی میں، ہر لمحہ صبر سے گزارا
خوابوں کی روشنی ہے، امید کے سہارا سے بنا
دوستی کا ہاتھ تھام، غم کو بانٹ لے دل میں
محبت کی خوشبو ہے، دل کی رونق سے بنا

0
9
44
تیرا سایہ چھوڑ گیا، خالی کمرہ ہے دل میں
ہر یاد کا عکس باقی، اور فسانہ ہمارا ہے دل میں
رات کی تنہائیاں سنبھالی، دل کی تنہائی میں
آنسو بھی چھپ چھپ کے بہے، اور صبر کا سہارا ہے دل میں
ہر قدم پر یادیں ہیں، ہر لمحہ تیرا پیغام
یادوں کی خوشبو بسی، اور سکون ہمارا ہے دل میں

0
1
10
زندگی کی راہوں میں مشکلات کا سفر
ہر خوشی چھوٹی لگے مگر سبق کا سفر
وقت کے پانی میں بہنا ہے دل کا سفر
خوابوں کی روشنی ہے امید کا سفر
دوستی کا ہاتھ پکڑ، بانٹ غم کا سفر
محبت کی مٹھاس ہے دل کا سفر

0
6
چراغِ دل ہے مدینے کی ایک جھلک سے بنا
یہ نور بخشا گیا، عشق کی لپک سے بنا
یہ کیسی خوشبو چلی، سب فضا معطر ہے
یہ دل تو روضے کی مٹی کی اک کِھلک سے بنا
نظر میں آ گئے جب، روضۂ رسولِ امین ﷺ
تو دل بھی کہنے لگا، یہ مرے طبق سے بنا

0
9
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت،
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں۔
چاند تاروں سے بھی روشن ہے تری یادوں کا جمال،
ہم تو شب بھر تری تعبیر لیے پھرتے ہیں۔
دل کی دھڑکن بھی تری آہٹ پہ ٹھہر جاتی ہے،
تیری سانسوں کی وہ تاثیر لیے پھرتے ہیں۔

0
8
تمہاری یاد کا ہر لمحہ دل میں بس گیا،
وقت کے ہاتھ بھی اب تم پہ کس گیا۔
خواب جو آنکھوں میں تھے، وہ ادھورے رہ گئے،
دل کی راہوں میں کبھی تم سے فس گیا۔
پھولوں کی خوشبو میں تمہاری مہک ملی،
پر خزاں کی ہوا نے سب کچھ چھس گیا۔

0
8
تمہارے بعد عجب دل پہ وقت آیا ہے،
نہ ہنسی سچی لگی، نہ غم سمایا ہے۔
کسی کے بعد بھی جینے کا فن تو سیکھ لیا،
مگر یہ دل تو وہیں رک کے رہ گیا ہے۔
کبھی خیال میں آؤ تو دل دھڑک اُٹھتا،
یہ پیار اب بھی بہت معصوم سا لگا ہے۔

0
8