Circle Image

محمد ندیم

@Nadeemgujjar

اردو شاعری

دل میں بڑھتی ہوئی ویرانی کی تصویر بنا
آئنہ توڑ کے حیرانی کی تصویر بنا
میں بناتا ہوں کسی دشت میں جلتے خیمے
اور تو بہتے ہوئے پانی کی تصویر بنا
شوقِ تبدیلیِ انسان کو حیرت میں بدل
خون میں تر ہوئی پیشانی کی تصویر بنا

0
46
اب حوصلہ نہیں ہے کسی کی اڑان میں
انسان مبتلا ہے عجب امتحان میں
ٹوٹا اگر تو کچھ بھی نہ بچ پائے گا حضور
یادیں سنبھال رکھی ہیں دل کے مکان میں
لینے کی بات کیجیے وہ دور ہے کہ اب
سب کچھ ہی بک رہا ہے انا کی دکان میں

0
173
لوگ سارے کہاں مجبور ہوا کرتے ہیں
کچھ تو دانستہ کچھ اور دور ہوا کرتے ہیں
منزلِ غم پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے
بیوفائی کے بھی دستور ہوا کرتے ہیں
جن کے سینے میں محبت کی تڑپ ہوتی ہے
ان کے چہرے بڑے پرنور ہوا کرتے ہیں

0
159
کیسے بتائیں اپنوں سے کیسا صلا ملا
منزل ملی نہ ہم کو کوئی رہنما ملا
سب کچھ ہے آئینے کی طرح سامنے ترے
میں کیا بتاؤں مجھ کو زمانے سے کیا ملا
چاہت کے پھول جب سے کھلائے نصیب نے
ہر اک قدم پہ مجھ کو نیا حادثہ ملا

0
132
چاہتوں میں مت کبھی حد سے گذر کے دیکھنا
لوگ ہاتھوں میں لئے بیٹھے ہیں پتھر دیکھنا
کتنی یادیں آئیں گی تم کو رلانے کے لئے
تم کتابوں میں کبھی اک پھول رکھ کے دیکھنا
ریت کے ساحل پہ اب تو بس یہی ہے مشغلہ
پہلے تیرا نام لکھنا پھر اسے مٹا کے دیکھنا

93
پھول بن کر میں تو ہر دل میں اتر جاؤں گا
بن کہ خوشبو میں ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
ہر نئے دن سے نیا عہد کیا جاتا ہے
روز خود سے میں یہ کہتا ہوں سدھر جاؤں گا
ہر نئے موڑ پہ پڑتا ہے غموں سے پالا
رنج و آلامِ سے بچ کر میں کدھر جاؤں گا

0
131
اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
ہم نے سوچا تھا کہ گھل مل کے زرا کم ہوگا
رنج بڑھتا گیا لوگوں سے شناسائی میں

5
247
وقت ساکن ہے سانس جاری ہے
بس ترے بعد یوں گزاری ہے
کسی آہٹ پہ چونکنا کیسا
جب ہے معلوم بے قراری ہے
رات کا روز یہ دلاسہ ہے
آج کی رات صرف بھاری ہے

441
ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک
بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے
وہ ہے خالی گھر کی صورت میں بھرا بازار ہوں
اُس کے جیسی خامُشی ہے میرے جیسا شور ہے
رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے

0
134
زخم دل کے سبھی چھپائے گئے
آنسوؤں سے دیے جلائے گئے
پوری کوشش ہمیں رلانے کی
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے
کیا بتائیں کہ کب ملی منزل
ہم تو ہر گام آزمائے گئے

117
وقت بے وقت قیامت تو نہ ڈھاؤں لوگو
درد پہلے ہی بہت ہے نہ ستاؤں لوگو
ہوش بھی عشق مرا عشق ہی مدہوشی ہے
میں تو دیوانہ ہوں تم ہوش میں آؤ لوگو
میرے سینے میں کبھی جھانک کے دیکھے کسنے
درد کے جلتے یہ ان گنت الاؤ لوگو

0
148
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف

0
14
239
زندگی رہ گزر ہے گزر جائیں گے
تم بھی مر جائے گے ہم بھی مر جائیں گے
ان کا شانہ نہیں ان کا انچل نہیں
چشم تر کیا یہ موتی بکھر جائیں گے
بند ہے یہ گلی اس پہ تیرہ شبی
ہم نوا یہ بتا ہم کدھر جائیں گے

0
148
اندیشہء زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
قزاق اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ

0
249
رستے میں ہاتھ چھوڑ کے دنیا سے ڈر گیا
اک شخص میرے واسطے زندہ ہی مر گیا
جن شدتوں سے وہ مرے سر پر سوار تھا
وہ جلد باز دل سے بھی جلدی اتر گیا
مانگا تھا زندگی سے جو کچھ روز کے لیے
مرهم نما وہ شخص بھی جانے کدھر گیا

195
اُس شخص کی تعریف بھلا کیسے بیاں ہو
جس شخص کو دیکھیں تو گلابوں کا گماں ہو
میں کون سے لفظوں سے اُسے یار سراہوں
جو پاؤں سے سر تک کوئی خوشبو کا جہاں ہو
کچھ شعر مِری آنکھ پہ کھلتے ہی نہیں ہیں
آواز تو دو مِیر کے دیوان کہاں ہو

0
404
ترے انتظار کی ریت پر
کوئی لفظ میں نے لکھا نہ تھا
کوئی حرف میں نے کہا نہ تھا
کوئی خواب میں نے چُنا نہ تھا
اسی انتظار کی ریت پر
مری آرزوؤں گلاب تھے

0
209
تو قریب اتنا مجھے شام و سحر لگتا ہے
دل کی شاخوں پہ محبت کا ثمر لگتا ہے
دیکھی ان دیکھی بہاروں کا اثر لگتا ہے
اور کچھ خوشیوں کے چھن جانے کا ڈر لگتا ہے
تو ملا ہے تو کہوں کیسے ملا کچھ بھی نہیں
آتشِ عشق ہے ایسی کے بچا کچھ بھی نہیں

0
270
چلی ہوا ترے منہ سے جب انکشاف چلے
مرے بھرے ہوئے کیسٹ مرے خلاف چلے
گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت
جو دھوپ چھاؤں میں لے کر ترا لحاف چلے
اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا
چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے

0
111
پھول کدھر جائے گا ٹوٹے گا بکھر جائے گا
خوشبو بن کے تری نس نس میں اتر جائے گا

0
113
زندگی تم سے بندگی تم سے
دل کے آنگن میں چاندنی تم سے
میرے سُر میری شاعری تم سے
میرے گیتوں میں نغمگی تم سے
آنکھ میں ہے تمہارا نُور بسا
دل میں رہتی ہے روشنی تم سے

0
127
یاد ہر ایک ہمیں وہ حسیں ساعت رہ گئی
آنکھوں کے در پہ سمندر کی علامت رہ گئی
سارے الفاظ مخالف میں تمہارے تھے مگر
جب ہوئے روبرو لہجوں میں محبت رہ گئی
بے اثر دستکیں فریاد صدائیں ہیں سبھی
غیر کے کھیل میں اپنوں میں رقابت رہ گئی

0
92
خمار عشق نے آنکھوں میں وہ حروف بھرے
کتاب کوئی ہو مضمون تیرا ہی ھوتا ہے !

0
120
بڑی ہے بات جو تم مان لیتے ہو
حسن والو ہماری کیوں جاں لیتے ہو

0
111
پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے
ہمیں نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی

0
133
تری آنکھوں پہ غزل کہنا بہت مشکل ہے
تری آنکھوں پہ تو قربان جوانی ہوگی

0
119
نظر پڑی کِسی تصویر پے تو یاد آیا
بہت عزیز تھی اِک شخص کو ہنسی میری

0
103
بس ایک ہی دسـتکِ غیبی کے اِنتظار میں ہم
تمام عمر بدن سراۓ میں ٹھہرے ہیں

2
159
آج تو ایک کام کرتا جا
میرا قصہ تمام کرتا جا
زخم جتنے بھی ہیں تمہی نے دیے
مرہموں کو بھی نام کرتا جا
طنز و دشنام ہی سہی چاہے
کچھ تو ہم سے کلام کرتا جا

19
286
زِندگی ڈھیر تَقاضوں کا بَھرم رَکھتی ہَے
مَیں گزَارُوں نہ گزَارُوں یہ گزَر جائے گِی

0
808
نا تھی پرواہ اپنی ذرا بھی مجھے
کھینچ لائی تھی بچوں کی بھوک یہاں

0
96
ہاتھ چُوم نے کی جب کی اِلتجا میں نے
تو مُسکرا کر کہنے لگئے صِرف ہاتھ کیوں

0
109
جانا ہوگا مجھے اجازت دے
خودکشی راہیں دیکھتی ہوگی !
وقتِ رُخصت کفن ہٹا کے مجھے
دیکھ لینا تُمھیں خوشی ہوگی !

0
140
چلا گیا تو نہ آئے گا پھر بلانے سے
تم اس کو روک لو یارو کسی بہانے سے
یہ چارہ گر یہ مسیحا فریب دیتے ہیں
ملے گا کچھ بھی نہیں حالِ دل سنانےسے
یہ بات بات پہ سیکھا ہے جو خفا ہونا
تو مان جانا بھی سیکھو ذرا منانے سے

0
111
دل سے نکال دیجئے احساسِ آرزو
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے

0
289
ہمیں مدت لگے گی بننے میں کچھ
جو ہیں وہ تو خدا بنے ہوئے ہیں

0
90
اور کیا عہدِ وفا ہوتے ہیں
لوگ ملتے ہیں جدا ہو تے ہیں
کب بچھڑ جائیں ھم راہِ ہی تو ہے
کب بدل جائے نظر ہی تو ہے
جان و دل جس پہ فدا ہو تے ہیں
بات نکلی بھی زمانے سے تھی

0
4
319
انسان تو کتنا بھی بہادر کیوں نا ہو
لیکن یہ محبت اسے رولا دیتی ہے

0
3
230
شاعری تو میں دل بہلانے کے لئیے کرتا ہوں ورنہ
دو الفظ کاغذ پر اتارنے سے محبوب کہاں ملتے ہیں

0
2
137
ٹھوکریں مارنے لگتا ہے لہو نس نس میں
کتنا دشوار ہے، تیرا مرا یکجا ہونا

0
115
لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر
وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ
جس کے تابع ہیں جنّات و انسان
فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــانِ
ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــاء
وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء

0
335
ایک مسُلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا ہے
مجھکو تیرے ساتھ اپنا کل تلاش کرنا ہے

0
112
اُس کو سُن لوں تو سبھی درد سکوں لگتے ہیں
جانے کِس دھن سے وہ لفظوں کو ادا کرتا ہے

0
411
وہ جو تقدیر میں لکھے نہیں ہوتے
ان ہی کی آرزو کو عشق کہتے ہیں

0
122
کیا کریں ایسی خوشی کو جو بھکاری کر دے
ہم کو جاناں ترے بخشے ہوۓ غم اچھے ہیں

0
75
دل کے سب زخم قرینے سے سجا رکھے ہیں
جو مگر تجھ سے ملے سب سے چھپا رکھے ہیں
جو ہمیں دیکھ کے ہنستے ہیں انہیں کیا معلوم
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
کوئی روٹھے ہوئے ساتھی کو ذرا سمجھائے
سب گلے ہم نے محبت میں بھلا رکھے ہیں

0
125
دسمبر ہوش کر پاگل یہ تجھ کو کیا ہوا آخر
بنا برسے گزر جانا تری فطرت نہ تھی پہلے

0
240
خدا کا شکر مجھے عشق ہو گیا ورنہ
میں تجھ پہ خرچ نہ ہوتا تو رائیگاں جاتا

0
171
مِیاں آہل سُخَن کی دوستی بِھی
ہُوا کرتی ہے تَقریباً مُحبّت

0
113
وہ مسکرا کے دیکھ لیں میری طرف کبھی
بس اُن کی اک نگاہ کی قیمت ہے زندگی

0
78
چل اپنے جیسے گنہگار ڈھونڈ آتے ہیں
نہیں ہیں راس ہمیں رنگ صوفیوں والے
کوئی بلائے تو خط پھاڑ دینا،مت آنا
یہاں مزاج ہیں لوگوں کے کوفیوں والے

0
892
پوچھا محبتوں کے زمانے کدھر گئے
بولی وہ موسموں کی روانی میں گِھر گئے
پوچھا وابستگی سے تھے کچھ لوگ کیا ہوا
بولی گھٹائیں چھا گئیں سب اپنے گھر گئے
پوچھا کہ میرے بعد کوئی مجھ سا بھی ملا
بولی نہیں ملا ہمیں ہم ہر نگر گئے

0
162
تُمہاری دی ہوئی ہر چیز مُجھ کو پیاری ہے
تُمہارے ہجر میں بھی بن سنور کہ رہتی ہوں

0
68
محبت درد بکھرا سا
محبت لفظ نکھرا سا
محبت آنکھ کا پانی
محبت رات کی رانی
محبت بےتکی تہمت
محبت نور کی مورت

0
111
میرے حالات پہ مسکراہ تو صاحب
یہ دعا ہے تمہیں بھی عشق ہو جائے

0
107
وہ الم کشوں کا ملنا وہ نشاط غم کے سائے
کبھی رو پڑے کبھی زخم ندیم مسکرائے

0
332
دسمبر جا خدا حافظ بہت دکھ درد بانٹے ہیں
کوئی روٹھا کوئی بچھڑا کسی کو چھوڑ آئے ہیں

0
239
نام کو تمہارے اک ہے مقام دے رکھا
لوگ بات منوالیتے ہیں ذکر تیرا کر

0
92
ہر شام یہ کہتے ھو کہ کل شام ملیں گے
آتی نہیں وہ شام ہی جس شام ملیں گے
اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا
کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے
آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے بہانے
ڈرتے ھو ڈراتے ھو کہ الزام ملیں گے

0
993
میری آنکھوں میں نہ ڈھونڈا کرو آنسو میرے
میں نے سینے میں چھُپا رکھا ہے ہر غم اپنا

0
169
کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہُوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بَسر کیسے ہُوئے
نینْد کب آنکھوں میں آئی کب ہَوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے ویراں نگر کیسے ہُوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کِس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرف دارِ ہوائے رہگُزر کیسے ہُوئے

0
103
بڑی ہی شدت سے آزماتے ہو صبر میرا
کبھی جو خود پے گزاری تو بکھرہ ہی جاو گے

0
122
خاموش سی آنکھوں سے جب بات ھوتی ہے
ایسے ہی محبت کی شروعات ھوتی ہے
تیرے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے رہتے
پتا نہیں کب دن کب ہی رات ھوتی ہے

0
67
کسی کو کیا بتاتی میں
کسی کو کیا سُناتی میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگین افسانہ
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے

0
142
اور جن کی زیادہ قدر کر لی جائے
وہ ہمیں گر ہوا ہی سمجھ لیتے ہیںً

0
61
لبوں کو پھول تو پھولوں کو لب کہا میں نے
بہت ہی پہلے جو کہنا تھا اب کہا میں نے
میں اس بہانے سے ہر بات دل کی کہتا ہوں
ہو شاعری میں بڑا نام کب کہا میں نے
میں سوچ سوچ کہ پاگل ہوا اسی ہی مشل
وہ رویا تھا میری جان جب کہا میں نے

0
122
بجھتا ہوا چراغ بھلا کیا دعا کرے
کہہ دو ہوا سے آج ذرا حوصلہ کرے
بندِ قبا جو کھول کے خوشبو صدا کرے
کیسے نہ چشمِ ناز کو یہ دل شفا کرے
جانے کہاں بچھڑ گئے تھے اپنی ذات سے
ہم کشت گان ہجر ہیں کوئی پتہ کرے

0
128
مشکل بڑی تھی دشتِ محبت کی سَیر بھی
اکڑے تھے اس سفر میں کئی بار پَیر بھی
تجھ سے کسی بھی ربط کی خواہش نہیں رہی
جب دوستانہ ختم تو پھر ختم بَیر بھی
ہر بار ایک رخ نیا آتا ہے سامنے
وہ جتنا آشنا لگا اتنا ہی غَیر بھی

0
129
نئے برس میں محبّت نئی کریں گے ہم
کسی کے ہجر کا یہ آخری مہینہ ہے

0
424
جس نے تنہائی کی بانہوں میں گزاری ہو حیات
تو اسے چھوڑ کے جانے سے ڈراتا کیا ہے
میری جیبوں میں محبت کے ہیں سکے لیکن
آج کے دور میں انکو سکوں سے آتا کیا

0
565
اب محبت کی بات مت کرنا اے دل
زخم پہلہ بھی ابھی سیلہ نا ہے

0
88
تیری آنکھوں کی کشش کیسےتجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے مری نیند اُڑا رکھی ہے

0
93
تُمھارے ساتھ تَخیُّل کے کورے کاغذ پر
میں دن بناتی رہی اور شام ہوتی رہی

0
116
خود کلامی میں راتیں گزر جائیں گی
ہفتہ گزرے گا عمریں گزر جائیں گی
ایک خط میں لکھوں گا بنامِ خدا
پہلی سطروں میں آہیں گزر جائیں گی
اس کی یادیں نہیں آئیں گی اِس طرف
گھر کے باہر سے راہیں گزر جائیں گی

0
116
سرخ سنہری پیلی کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دیکھ کے چھتری کی ایجاد ہوئی
تجھ کو دریا پار سے دیکھا کرتے تھے
پھر بستی میں کشتی کی ایجاد ہوئی
میں نے تیرے ہاتھ پہ اپنا نام لکھا
اور دنیا میں تختی کی ایجاد ہوئی

0
121
یہ جان کر بھی کہ تُو اپنی دَسترس میں نہیں
وفا کا کھینچ دیا اِک حِصار بس یونہی

0
121
زندگی حقیقت میں بس میں اتنا ہی جانا
درد میں اکیلے ہیں خوشیوں میں زمانہ ہے

0
576
تمہیں یہ فخر تو حاصل ہے تمہیں چاہا گیا
ہمارے پاس یہ احساس بھی ادھورا ہے

0
128
کبھی جو دل تُو دھڑکا دے تو جا کے دل دھڑکتا ہے
کبھی مدھم کبھی ساکت کبھی درہم کبھی برہم
ترے ہی اسم سے جاناں مہکتی صبح ہے میری
کبھی روشن کبھی جھلمل کبھی چپ چپ کبھی پرنم

0
72
تیرے ہونٹوں پہ مسکان سجا دوں
تو ہنسے تو میں غم اپنا بھلا دوں
کوئی پوچھے مری جان ہے کس میں
مسکرا کے اسے نام بتا دوں

0
133
عشق ویرانے کی وہ راہ گزر ہے جس پر
دِل ٹھہر جاتا ہے اور عمر گزر جاتی ہے

0
210
ھم تیرے لگتے تو کچھ بھی نہیں مگر ہے یہ
نہ جانے بن ترے کیوں ہم اداس رہتے ہیں

0
126
یہ تھا ہی نہیں کہانی کا انجام اصل مِیں
کیا کیجئے کہ بِیچ مِیں کردار بِک گئے
یہ لازم ہے رکھیے اپنی نظر آستین پر
یہ سننے مِیں آ رہا ہے نمک خوار بِک گئے

0
125
میری کتابِ زیست تم اک بار تو پڑھو
گر چاہے پھینک دو کسی اخبار کی طرح
ـ

0
77
سارے غموں کی وفات ہو جاتی ہے
جب میری تم سے بات ہو جاتی ہے،

0
132
عادتیں ڈال کر اپنی توجہ کی
ایک دم جو بدلتے ہیں ستم کرتے

0
334
ہم بھی شوقین پینے کے ہیں
جب ہیں پیتے تو چائے پیتے

0
65
رشتہ رکھنا ہو تو اچھائی بیاں کرتے رہو
ختم کرنا ہو تو سچائی بیاں ہی کر دو

0
80
ساتھ اپنوں کا نبھانا تو کوئی بات نہیں
غیر کا بن کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
عمر کر دینا محبت میں عجب کیا صاحب
تم مجھے مر کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے
تم جو کرتے ہو محبت پسِ دیوارِ انا
تم یہ دیوار گِراؤ ہی تو کوئی بات بنے

0
97
ہم جیت بھی سکتے تھے اس عشق کی بازی کو
وہ جیت کے خوش ہوگا یہ سوچ کے ہم ہارے

0
134
دل کی دھڑکن ہوا کرے کوئی
میرے دل میں بسا کرے کوئی
آتشِ عشق میں فنا ہو کر
رقص بسمل کیا کرے کوئی
ٹوٹ کر چاہے میرا ہو کے رہے
زندگی بھر وفا کرے کوئی

0
200
لاکھ بولا نہ قتلِ عام کرو
باز آئی نہ تم سنورنے سے

0
74
وہ پڑھ رہا ہے ان دنوں اوروں کی شاعری
میں اس کے انتخاب میں شامل نہیں رہی

0
97
کبھی تو ان کی بھی قدر کر کے ہی دیکھیں
جو آپ سے بنا مطلب کے پیار کرتے ہیں

0
66
تجھ کو پا کر بھی کچھ نہیں پایا
تیرے ہو کر بھی بے سہارے ہیں

0
102
روز کی طرح ہی آج بھی درد کو
ہم چھپانے لگے تھے مگر رو پڑے

0
102
پھر سے تیری کمی محسوس ہوئی شدت سے
آج پھر دل کو منانے میں بہت دیر لگی

0
269
اکھیاں وچ تو وس دا ایں
میں صدقے جاواں اکھیاں دے

0
264
تیرے لفظوں میں وہ تفصیل کہاں
اپنی آنکھوں سے کہو، بات کرے

0
94
تو جو بھی بول مگر ہمکلام رہ مُجھ سے
تُو جانتا ہے مجھے چپ سُنائی دیتی ہے

0
167
پیار کرنا دغا نہیں کرنا
دل کو دل سے جدا نہیں کرنا
غیرتِ ضبط کا تقاضا ہے
درد سہنا، گلِہ نہیں کرنا
لڑکیاں زود رنج ہوتی ہیں
کبھی ان کو خفا نہیں کرنا

0
95
وہ مری شامیں سہانی اور چُپ
ہائے اُس کی بدگمانی اور چُپ
طاقچوں میں رات کے رکھی رہیں
دو جلی شمعیں پرانی اور چُپ
اپنے اپنے ذائقے میں زہر ہیں
آنکھ کا یہ کھارا پانی اور چُپ

0
76
میں نے الفت کے فسانوں میں پڑھا ہے تمہیں
تم وہی ہو جو کہ دھڑکن کو بڑھا دیتے ہو

0
186
آخری دیپ ہے بھروسے کا
سرد لہجے بجھا نہ دیں اس کو

0
119
سلجھا کے اپنی زُلف کو وہ مطمئن ہیں یوں
جیسے کوئی جہاں میں پریشاں نا رہا

0
150
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا

0
479
جسم سے روح نکلنے کا سماں ہو جیسے۔۔!
جان لیوا ھے ترا مجھ سے گریزاں ہونا۔!!

0
100
بہت ہے بھی سکوں گہرا بہت اجلی ہے خاموشی
بہت آباد لہجے میں، بہت سنسان ہے کوئی!!!!!!!

0
155
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
64
سکھائی ہیں یہ سب باتیں بھی محبت نے
میں نے بھی دھوکھے بہت عشق میں ہی کھائے ہیں

0
97
کوئی بانٹے مرے ساتھ مری تنہائی
ڈھونڈ کے لا دو مجھے زیست سے ہارا کوئی

0
73
کس قدر کارِ اذیت ہے ذرا سوچو تو
جس نے ملنا ہی نہیں اس کی تمنا کرنا

0
228
تو نے چپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی زمانے سے ہوئی

0
144
تیرا وجود روجوں کے اعتکاف پر
میرا وجود تیرے ہی عین شین قاف

0
91
چاندنی رات کے خاموش ستاروں کی قسم
دل میں اب تیرے سوا کوئی بھی آباد نہیں

0
155
تیری صورت ہی مری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

0
94
ہم کو مارا گیا ہے نفرت سے
ہم پہ الزام تھا محبت کا

0
86
نہیں فرصت یقیں جانو ہمیں کچھ اور کرنے کی
تری باتیں تری یادیں بہت مصروف رکھتیں ہے

0
188
تم اگر چاہو تو تجدید محبت کے لیے
ایک ہلکا سے تبسم کی اک انگڑائی بہت

0
115
طبیب تھک چکا مگر یہ گھاؤ بھر نہیں رہا
شفا کی آس مر چکی مریض مر نہیں رہا

0
768
اشعار کے پردے میں جذبات بیاں کرنا
کیا خوب سلیقہ ہی ھے لفظوں کو زباں کرنا

0
113
ہاتھ ہاتھوں میں لے لیا اُس نے
جتنے گھاؤ تھے بھر گئے دل کے

0
260
پھر سے اک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے

0
433
بہت سا عرصہ ہوا نا آیا خبر بھی لینے
بڑا تھا آیا یہ زندگی بھر کا ساتھ دینے

0
84
کوئی امید ملاقات کی ہی دلا دو بس
پھر انتظار تو ہم ساری عمر کر لینگے

0
78
دل ہے یوستہ کسی شخص کے دل سے میرا
ہاتھ میں ہاتھ نہیں ہے کہ چھڑاتل جاؤ

0
67
عقل نے کردی دیر آنے میں
عشق لے بھی چکا تھا کام اپنا

0
125
چُھٹی کوئی مرے ساتھ مَنا گاؤں میں
کوئی خُوش بَخت سا اتوارمُکمل کر دے

0
79
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کیسی عزیز سے کوئی کب تک خفا رہے

0
60
ہر ایک بات پہ اسکا جواب ہے لیکن
تمام بحث کا لب و لباب ہے لیکن
ہمارے پاس نہیں خواب کی حقیقت دوست
ہمارے پاس حقیقت کا خواب ہے لیکن
کوئی خلا ہے جو بھرتا نہیں کسی صورت
ہر ایک چیز ہمیں دستیاب ہے لیکن

0
84
جا چکے اب تو مری فکر کمانے والے
دن وہ بچپن کے نہیں لوٹ کے آنے والے
اب نہ وہ رنگ نہ خوشبو کے وہ میلے ٹھیلے
لے گئے ساتھ مرا وقت سجانے والے
لے گئے چاند بھی تارے بھی مری شامیں بھی
جو تھے جگنو مری راہوں میں بچھانے والے

0
107
میں ترے لب پہ ہوں دیرینہ شکایت کی طرح
یاد رکھنا ہے مجھے تو نے عداوت کی طرح
چاند نکلے تو مرا جسم مہک اُٹھتا ہے
رُوح میں اُٹھتی ہوئی تازہ محبت کی طرح
تیری خاطر تو کوئی جان بھی لے سکتا ہوں
میں نے چاہا ہے تجھے گاؤں کی عزت کی طرح

0
500
اب حالِ دل نہ پوچھ، کہ تابِ بیاں نہیں
اب مہرباں نہ ہو کہ ضرورت نہیں رہی

0
888
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوۓ
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

0
159
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی صرف محبّت نہ ملی

0
201
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے بڑے ہی خوبصورت ہیں

0
646
بس اتنے ہی سے الفاظ کہنے ہیں تم سے
خیال رکھا کرو اپنا اچھے لگتے ہو

0
107
تو دل میں آئی تو ہر شے نکل گئی دل سے
تری طلب نے زمانے سے بے طلب رکھا

0
125
کوئی کردار تو تم لائو ہمارے جیسا
ہم اسی روز کہانی سے نکل جائیں گے

0
125
خاک میں گزرا ہوا کل نہیں ڈھونڈا کرتے
وہ جو پلکوں سے گرا پل، نہیں ڈھونڈا کرتے
پہلے کچھ رنگ لبوں کو بھی دیئے جاتے ہیں
یونہی آنکھوں میں تو کاجل نہیں ڈھونڈا کرتے
بیخودی چال میں شامل بھی تو کر لو پہلے
یوں تھکے پیروں میں پائل نہیں ڈھونڈا کرتے

0
108
تم کو ترسنے کا مطلبِ سمجھ میں آ جائے
ہمارے سامنے کچھ دیر بیٹھ کر دیکھو

0
67
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشا گویا
روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے تھے
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے

0
85
‏بھیجی تم نے ڈاک میں کتنی اداسیاں
چہرہ اُتر گیا مرا مرجھا گئے ہیں پھول

0
69
کہانی کار نے سب کو بتا دیئے کِردار
مجھے بس اتنا کہا ہے کہ تم نے مرنا ہے

0
176
ہٹا کر کفن مجھے بار بار تو دیکھیں گے
انھیں میرے مرنے کا اعتبار بھی نا ہو گا

0
76
صرف دھوکہ ہی دے سکا وہ
اُس کی اوقاتِ اتنی ہی تھی

0
72
جاگی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں
کچھ تعلق عذاب ہوتے ہیں
ٹوٹنے تک یہ کچھ نہیں ہوتے
ٹوٹ جائیں تو خواب ہوتے ہیں
کچھ مسائل کا مسئلہ یہ ہے
حل کرو تو خراب ہوتے ہیں

0
313
خزاں میں ہی شاخ سے گرتے پتوں نے اُداس
‏مجھے یہ درس دیا ہے زوال سب کو ہے

0
95
کچھ ہی قدموں کی دوری پر تھی
منزل کے بہت قریب تر تھی

0
74
کہاں رہی وہ محبت ہے آج کل
بہت سے لوگ ہوس کا شکار ہے

0
70
میرا گلا کرنا بنتا بھی نہیں ہے
کیونکہ وہ تو پہلے ہی بے وفا تھا

0
64
کسر کسی نے ہی نہیں چھوڑی مجھے مٹانے کی
خدا محافظ رہا میرا ہر زمانے میں ندیم

0
129
اپنی ہر بوند تری یاد کی لذت لیکر
بارشیں آگ لگانے کا ہنر لائی ہیں

0
112
ہم نکالیں گے اے سُن موجِ ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

0
83
ایک احساس ہی دل میں جگانے کے لیے
بات کرتے ھوئے مر جائیں تو کیسا ھوگا

0
127
ہر چیز ہی کہ مل جاتی ہے کہ ہی دعا سے
اک بار تمہیں مانگ کردیکھیں گے خداسے

0
71
شاعری شوق نہیں اور نہ ہی کار وبار
درد برداشت نہیں ہوتا تو لکھ دیتا ہوں

85
اب کسی کو کسی سے ڈر ہی نہیں
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

0
100
یہ خالی جیبیں فقیر حلیہ اداس آنکھیں
ہمیں کوئی جو گلے لگائے تو کیوں لگائے

0
188
دونوں ہی مرحلوں میں ہوں میں ہجر اور وصل
بیٹھا ہے میرے پاس وہ جانے کے بعد بھی

0
165
کیوں نا اے شخص تجھ کو دیکھوں لگا کے ہاتھ
تُو میرے وھم سے بڑھ کر بھی تو ھو سکتا ہے

0
88
نشانِ سجدہ سجا کر بہت غرور نہ کر
وہ نیتوں سے نتیجے نکال لیتا ہے

0
241
تم کو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تم پے کئی بار مر گئے

0
880
جس کے لیے لِکھا اُس نے ہی نا پڑھا
پھر عالمِ کُل بھی پڑھ لے تو مُجھے کیا

0
58
گر زندگی میں ہوتی اک قتل کی اجازت
میں خود کو ہی بہت بے رحمی سے مار دیتا

0
71
مٹ جانے کا ارادہ تمہارے لئے تھا
تم خود ہی مٹا دو گے یہ سوچا ہی نا تھا

0
61
عشق کو بھی عشق ہو تو پھر میں دیکھو عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روۓ عشق اپنے عشق میں

0
348
یہی بُہت ہے کہ دِل اُس کو ڈھونڈ لایا ہے
کِسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آیا ہے!

0
201
وہ آئیں گے ہی جِس بھی روز مِلنے
یقیناً فروری کی " تیس " ہوگی!

0
87
اور پھر چھوڑ گئے وہ جو کہا کرتے تھے
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے

0
172
قسم خدا کی کہ سب کُچھ مُجھے مُیسر ہے
بُہت ستاتی ہے لیکن تری کمی مُجھ کو!

0
102
خبر تھی کیا ہو جائے گی ہی محبّت تم سے
مجھے تو بس تیرا مسکرانا اچھا لگا تھا۔

0
101
ہم نے کب تم سے ملاقات کا وعدہ چاہا
دور رہ کر بھی تمہیں تم سے زیادہ چاہا"!

0
172
وہ رُوٹھا رہے مُجھ سے يہ منظُور ہے ليکن۔!
يارو اُسے سمجھاؤ ميرا شہر نہ چھوڑے

0
89
مجھے مطالب نہیں کوئی کس کے ساتھ کیسا
جو میرے ساتھ اچھا ہے وہ میرے لیے اچھا ہے

0
69
اور ہنستے ہوئے چہرے نے بھر رکھا ہمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ہے ہم

0
284
میں نے حلفاً اُسے بتانا ہی تھا
تُم میرے جسم و جاں میں بستے ہو

0
82
یہ تلخیوں سے بھرے ہوئے لوگ،
طنزیہ بھی نا کہے تو مر جائیں!

0
103
میں تیرا ذِکر کروں اپنے شعر میں یعنی
فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے

0
111
ناراض ہمیشہ خوشیاں ہوتی ہیں
اتنے نخرے غم کے ہوتے ہی نہیں

0
91
اک بہانہ ہے مرے پاس ابھی جینے کا
ایک تصویر پڑی ہے تری میرے دل میں

0
80
دلیل تھی نا کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے ہی ہے

0
159
حقیقتِ سے پردہ اک دن اٹھ ہی جائےِ
سچِِ کو سامنے تو اب ہی رکھا جائےِ

0
77
یقیں گم ہو چکا ہم سے گماں محفوظ رکھا ہے
خیال و خواب سا رنگیں جہاں محفوظ رکھا ہے
ہوا مسمار سب لیکن جہاں تم گھر بناتے تھے
وہ دل کا ایک ٹکڑا جان جاں محفوظ رکھا ہے
شکستہ ہو چکے جل بجھ چکے تاریخ شاہد ہے
فضاؤں میں مگر اب تک دھواں محفوظ رکھا ہے

0
114
تلخی و حیات پی بھی لینے تو دیجئے
میسر ہو نا ہو پھر یہ شب پینے دیجئے
مےچل رہی تھی بادہ کش دست ساقی سے
پروانے کو  گلا ہے کیا پینے دیجئے
آئے یہاں سے اب خالی ہاتھ تو نا جائیں
تھوڑی سی میکدے ہمکو پینے دیجئے

2
123
تلخی و حیات پی بھی لینے تو دیجئے
میسر ہو نا ہو پھر یہ شب پینے دیجئے

71
اسے خوش کا   کوئی  بہانہ ڈھونڈتے  ہیں
مل  جائے  کوئی  ایسا  افسانہ  ڈھونڈتے ہیں

0
83
غم  نا   کر غم  بندے کو  جلا   دیتا  ہے
کون  ہے   جو  مجھکو   ہر  روز  پلا   دیتا  ہے
بھولنے کی  کوشش  میں رہتا  ہوں میں  ہر  لمحہ
کوئی ہے جو زخموں  پے نمک  ہی  لگا  دیتا  ہے
غم کے بادل  ہے سر پے اک سائے کی طرح
کوئی ہے جو بجھی  آگ  کو پھر سے  ہوا  دیتا  ہے

0
98
پہلے ملنے سے وہ بچھڑ گیا
وعدہ کرکے آیا تھا ملنے کا

0
91
آتی کہاں تھی شاعری سیکھا دی اس نے
عادت تھی کہاں عادت ہی بنا دی اس نے
پیار محبت کرنا بھی سیکھا دی اس نے
بھیجے شعلوں کو پھر سے ہوا دی اس نے
بھٹکا ہوا تو تھا میں پہلے  ہی  راہ  سے
دیکھتے دل کی بستی ہی جلا دی اس نے

0
111
آتی کہاں تھی شاعری سیکھا دی اس نے
عادت ہی کہاں تھی عادت بنا دی اس نے
پیار محبت کرنا بھی سیکھا دی اس نے
بھیجے شعلوں کو پھر سے ہوا دی اس نے
بھٹکا ہوا تو تھا پہلے ہی راہ سے میں
دیکھتے دل کی بستی ہی جلا دی اس نے

0
94
گر قلم کار کے کہنے میں نہیں آئے گا
تیرا کردار کہانی سے نکل جائے گا
یہ تماشا ہے ، تماشے میں یہی ہوتا ہے
تجھ سے بہتر جو نبھائے گا، جگہ پائے گا

0
521
جس سے کر لیتے ہیں دل کی بات
اور ہم پھر نہیں چھوڑتے

0
140
بات وہ بھی نہیں مانتا
اور ضد ہم نہیں چھوڑتے

0
78
تھے اور بھی چاہنے والے زمانے میں
مگر ہم نے تو دل تم سے لگایا تھا

0
64
اور نہیں کچھ بس اتنا ہی کافی ہیں
اس کی آنکھ کا نظارہ ہی کافی ہے
بات نا بھی ہو اس سے
ہو جائے دیدار اتنا ہی کافی ہے
دل تو کہتا ہے تیرا ساتھ عمر بھر کا
ہو اک پل کی ملاقات اتنا ہی کافی ہے

0
125
جی بر کے دیکھن سے جی بر گیا ہے میرا
کچھ وہ محبت میں ایسا دغا کر گیا ہے
جی تو چاہتا اس کا نام تلک نا لو
نام بھی لینا مجبوری اک بن گیا ہے
دکھ ہوتا ہے جب کوئی راہ میں چھوڑ کے جائے
پاس ہو کر منزل کے وہ راہ بدل جائے

0
99
اچھے کی امید مجھ سے نا کیجئے
برا ہوں میں برا ہی رہنے دیجئے

0
109
تیرے شہر میں ہم بھی آئے تھے بے وفا
ہر کسی سے وفا ملی بس اک تیرے سوا

0
170
کیا غضب کی کشش تھی تیری آنکھوں میں
اور چہرے کو زلفوں میں چھپا ہوں تھا

0
97