| زمانہ چھین نہ پائے جو دل کا سودا ہے |
| یہی جنوں ہے ہمارا، یہی ارادہ ہے |
| بہت قریب سے دیکھا ہے گردشِ ہستی |
| یہ چار دن کا تماشا، یہ سب کشادہ ہے |
| تری گلی سے گزرتے ہوئے خیال آیا |
| کہ آج بھی کوئی عاشق یہاں زیادہ ہے |
| نہ شیخ کی نہ صنم کی، کسی کی سنتے نہیں |
| ہمارا اپنا ہی قبلہ، ہمارا سادہ ہے |
| یہ دل تو پہلے ہی دیوانہ تھا محبت میں |
| فقط تری نظرِ التفات زیادہ ہے |
| سحر ہوئی تو یہی بات شہر میں پھیلی |
| کوئی تو ہے جو اندھیروں کا بھی ارادہ ہے |
| کبھی تو آؤ کہ اب دل کو صبر آ جائے |
| کہ انتظار کا اب حوصلہ زیادہ ہے |
| ندیمؔ اب تو یہ عالم ہے بے بسی کا ک |
| نظر میں صرف وہی ایک شاہزادہ ہے |
معلومات