عجب ہے گردشِ تقدیر، اب ٹھکانہ کوئی
نہ آشنا کوئی اپنا، نہ ہم نوا کوئی
یہ دل وہ گھر ہے کہ جس میں کبھی سکوں نہ ملا
مگر رہے گا یہاں عمر بھر دوانہ کوئی
جو دل پہ نقش ہوئے زخم، یار کے تھے ندیمؔ
لگا سکے نہ محبت کا اب فسانہ کوئی
ہزار بار کیا شکوۂ جفا اس سے
مگر وہ شخص رہا کب مرا شناسا کوئی
نہ پوچھ حال دلِ زار کا، کہ دنیا میں
نہیں ہے اس کے سوا درد کا ٹھکانہ کوئی
جو رہ گزر سے ہماری کبھی گزرتے تھے
اب اس گلی میں نہیں آتا، دل رُبانہ کوئی
یہ زندگی تو فقط ایک ہجر کا سودا
وفا کے نام پہ کب تک سہے خسارہ کوئی
تمام عمر ندیمؔ اب اسی گماں میں کٹی
کہ جیسے اب بھی ادھر منتظر ہے اپنا کوئی

0
4