| کوئی منزل نہیں اپنی، کوئی رستہ نہیں اپنا |
| کِسی جانب نہیں جاتی، نظر رستہ نہیں اپنا |
| یہ دنیا ایک صحرا ہے، یہاں کوئی نہیں اپنا |
| جہاں تک جا کے دیکھیں ہم، کوئی اپنا نہیں اپنا |
| عجب ہے زندگی اپنی، عجب ہیں اس کے افسانے |
| نہ کوئی پاس ہے اپنے، نہ کوئی آشنا اپنا |
| چلے ہیں جس سفر پر ہم، وہاں ہے دشت ہی دشت |
| نہ کوئی سایہ سر پر ہے، نہ کوئی آسرا اپنا |
| یہاں تو ہر قدم پر ہے، نئی اک آزمائش ہی |
| بچا پائے نہ دل اپنا، نہ کوئی مدّعا اپنا |
| وفا کی راہ میں آخر، بھلا کیا کچھ نہیں کھویا |
| نہ گھر اپنا رہا باقی، نہ کوئی حوصلہ اپنا |
| غموں کے بوجھ سے اب تو، کمر ٹوٹی سی جاتی ہے |
| کوئی پوچھے تو کیسے ہے، گزر ہوتا نیا اپنا |
| یہی قسمت ہے "ندیم" اب تو، یہی اپنی کہانی ہے |
| کہیں خوشیاں نہیں اپنی، کہیں رونا نہیں اپنا |
معلومات