یہ دل ہے مبتلائے غم، ازل سے اس خرابے میں،
کہ جیسے کوئی شمعِ جاں، سلگتی ہو سرابے میں۔
ہر اک مشکل ہوئی آساں، تری الفت کے پردے میں،
کوئی سمجھے تو یہ نکتہ، چھپا ہے اس حجابے میں۔
وہ آنکھوں کا اشارہ، وہ تبسم، وہ ادا کیسی،
کہ جیسے بجلیاں کوندیں، کسی کے چشم و خوابے میں۔
خودی کا راز ہے پنہاں، عمل کی زندگی میں ہی،
یہی پیغامِ فطرت ہے، ہر اک تازہ نصابے میں۔
عجب اک کیفیت طاری، عجب سوز و گداز اپنا،
نہ کوئی چین پہلو میں، نہ کوئی دل جوابے میں۔
ہزاروں غم سہے ہم نے، مگر شکوہ نہیں کوئی،
مزا ہی کچھ عجب پایا، غمِ دوراں کے بابے میں۔
جنوں کی انتہا یہ ہے، کہ عقلیں دنگ رہ جائیں،
کہ ہم نے گھر بنا ڈالا، اسی دشتِ خرابے میں۔
ندیمؔ اب فکرِ فردا کیا، کہ جب دل نے سکوں پایا،
ترے کوچے میں، الفت کے، اسی خانہ خرابے میں

0
3