یہ عشق ہی تو ہے جو رنگِ کائنات میں ہے
یہی وہ راز ہے جو ہر اک حیات میں ہے
کہاں نصیب یہ دوری، کہاں یہ قربتیں تھیں
عجیب کیفیت اک واردات میں ہے
ازل سے تیری طلب میں بھٹک رہا ہے بشر
یہ جستجو تو ازل سے ہی ذات میں ہے
وہ اک نگاہ، وہ اک پل کا دیکھنا تیرا
تمام زندگی کی وہ نجات میں ہے
خبر نہیں کہ یہ کیا سحر کر گیا ہے کوئی
یہ دل تو اب کسی اور کے ہاتھ میں ہے
یہ عاشقی ہے کہ دنیا کے غم بھلا ڈالے
ہر ایک درد ترا میری اوقات میں ہے
میں تیرے ہجر کے صحرا سے یوں گزر آیا
کہ جیسے کوئی مزا ہی ثبات میں ہے
ہمارے دل کی اداسی کا راز کیا پوچھے
یہ غم تو اب مری ہر اک صفات میں ہے
ندیم کوئی نہیں دیکھتا اسے لیکن
جو سوزِ عشق تری ہر اک بات میں ہے

0
3