کیا خبر تھی کہ یہ دن رات بھی آ جائیں گے
دل میں الفت کے جذبات بھی آ جائیں گے
دل یہ کہتا ہے ملاقات رہے گی قائم
پر یہ ڈر ہے کہ لمحات بھی آ جائیں گے
ہم نے سوچا تھا فقط آپ ہی ہوں گے دل میں
کیا خبر تھی کہ خیالات بھی آ جائیں گے
ان کی محفل میں ہمیں دیکھ کے شرما گئے وہ
شکر ہے لب پہ تبسم کے اشارات بھی آ جائیں گے
غمِ دنیا کو بھلا بیٹھے تھے تیری چاہت میں
اب جو روٹھے ہو تو صدمات بھی آ جائیں گے
کچھ اشارے تھے محبت کے، کچھ افسانے تھے
رفتہ رفتہ یہ روایات بھی آ جائیں گے
ہو سکے تو دلِ مضطر کی خبر لے لینا
ورنہ پھر ہجر کے اوقات بھی آ جائیں گے
اے ندیم اب نہ ستانا دلِ ناشاد اپنا
ورنہ پھر پہلی سی وہ بات بھی آ جائیں گے

0
4