رہِ اُلفت میں سفر ہے، کوئی منزل تو نہیں
یوں بھٹکنے کا مگر دل کو بھی حاصل تو نہیں
ہم نے مانا کہ خطا وار ہیں، مجرم بھی سہی
پر یہ اندازِ ستم آپ کا عادل تو نہیں
جس کو دیکھو وہی مصروفِ گلہ ہے اپنا
زندگی کوئی مسلسل سی مشاکل تو نہیں
وہ جو آنکھوں سے چھلکتا ہے، وہ غم ہے یا خوشی؟
بات دل کی ہے، بیاں جس کا بھی مشکل تو نہیں
اپنی تقدیر سے لڑنے کی ادا اچھی نہیں
ہر دعا رب کی طرف سے کوئی ساحل تو نہیں
دل کے ویرانے میں اُمید کا مطلع تو سجا
یوں ہی تاریک رہے، یہ کوئی محفل تو نہیں
آج ہر بات پہ روٹھا ہے زمانہ سارا
کیا کہیں، اب کوئی سننے کے بھی قابل تو نہیں
شعر کہتے ہیں مگر آج کل ندیمؔ اکثر
اس ہنر سے ہمیں اب کوئی بھی حاصل تو نہیں

0
4