یہ دل جب سے لگا اس سے، عجب حالت ہوئی دل کی
نہ خود پر اختیار اب ہے، نہ سُدھ بُدھ ہے مسائل کی
بہاروں میں خزاؤں کا، گزر کیوں کر ہوا آخر
نہ کوئی پھول اب کھلتا، نہ خوشبو ہے شمائل کی
جدھر دیکھیں ادھر غم ہے، جدھر جائیں ادھر ماتم
کسی سے کوئی نسبت ہے، نہ کوئی بات محفل کی
ہماری ذات پر اب تو، کئی الزام لگتے ہیں
وفا کی راہ میں ہم سے، ہوئی جو بھول غافل کی
سرابوں میں بھٹکتے ہیں، کبھی ساحل نظر آئے
یہی بس زندگی اپنی، یہی اوقات ساحل کی
نہ کوئی ہم نوا اپنا، نہ کوئی دلربا اپنا
فقط اب یاد باقی ہے، اُسی کی چشم کاحل کی
غمِ دوراں نے آ گھیرا، ہمیں اس موڑ پر پیارے
نہ کوئی صورت اب دل میں، نہ کوئی شکل شامل کی
"ندیم" اب شاعری اپنی، فقط دل کا فسانہ ہے
یہی تکمیل ہے اپنی، یہی ہے شکل کامل کی

0
4