سفر میں منزلیں، کارواں اور بھی ہیں
مقام اور بھی ہیں، آشیاں اور بھی ہیں
یہیں پہ ختم نہیں جستجو کی راہِ حیات
فضا میں وسعتیں، آسماں اور بھی ہیں
نہ ہار ہمت و جاں، اے اسیرِ دامِ یقیں
کہ بے خودی کے نئے امتحاں اور بھی ہیں
جو اپنے زورِ عمل سے جہاں کو فتح کرے
اسی کے واسطے باغ و بُستاں اور بھی ہیں
گراں نہ ہو تجھے یہ ساز و برگِ عیش و نشاط
کہ اہلِ فقر کے طرزِ بیاں اور بھی ہیں
طلب کا ذوق سلامت رہے، نہ ٹھہر کہیں
کہ تیرے سامنے کہکشاں اور بھی ہیں
یہیں پہ ڈیرے نہ ڈالو، ابھی تو وقتِ سفر
گئے دنوں کی طرح کارواں اور بھی ہیں
"ندیمؔ" اہلِ جہاں سے جدا ہے تیرا نصیب
کہ تجھ کو سوزِ درونی، بیاں اور بھی ہیں

0
3